بچے مسلسل کھیل کود کے باوجود تھکتے کیوں نہیں؟

05 مئ 2018
بچوں کے جسمانی اعضاء میں تھکاوٹ کا احساس تک نہیں ہوتا، ماہرین—فوٹو: ٹائمز لیسن
بچوں کے جسمانی اعضاء میں تھکاوٹ کا احساس تک نہیں ہوتا، ماہرین—فوٹو: ٹائمز لیسن

یقینا آپ بھی بعض مرتبہ بچوں کے مسلسل کھیلنے، شرارتیں کرنے اور ڈانٹنے کے باوجود بھی ان کی جانب سے کھیل کود جاری رکھنے پر تنگ آجاتے ہوں گے۔

اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف آپ کے ہی بچے شرارتی ہیں، جو منع کرنے کے باوجود اپنا کھیل کود جاری رکھتے ہیں تو آپ غلط سمجھتے ہیں۔

دراصل دنیا بھر کے تمام بچے ایسے ہی ہیں جو مسلسل کھیل کود کرنے کے باوجود بھی نہیں تھکتے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ آخر بچے تھکتے کیوں نہیں؟

اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے آسٹریلیا اور فرانس کے ماہرین نے ایک تحقیق کی، جس کی رپورٹ سائنس جرنل ’فرنٹیئرز ان فزیولاجی‘ میں شائع ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق ماہرین نے بچوں اور بڑی عمر کے افراد کے درمیان تھکاوٹ کا موازنہ کرنے کے لیے نابالغ بچوں اور بڑی عمر کے افراد کے 2 گروپس بنائے، جنہیں ایکسرسائیز یا کھیل کود کے مختلف ہدف دیے گئے۔

بچوں اور بڑوں کو دیے گئے اہداف کے بعد ان کا جسمانی معائنہ بھی کیا گیا اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ آخر بڑوں کے مقابلے بچے کیوں نہیں تھکتے؟

یہ بھی پڑھیں: ہروقت تھکاوٹ کا سبب بننے والی عادتیں

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ نابالغ بچوں کے پٹھوں سمیت دیگر اعضاء میں تھکاوٹ کا احساس ہی موجود نہیں تھا، جس وجہ سے ایکسرسائیز یا کھیل کود کے دوران ان کا جسم مزید متحرک ہوجاتا۔

ماہرین کے مطابق حیران کن طور پر بچے مشکل ٹاسک میں بھی بڑی عمر کے افراد کے مقابلے زیادہ دیر تک ایکسرسائیز کرتے رہے، جس وجہ سے ان کے پٹھوں سمیت دیگر اعضاء کو مزید متحرک پایا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بڑی عمر کے افراد کے پٹھے اور دیگر جسمانی اعضاء میں تھکاوٹ ہوتی ہے، جس وجہ سے وہ تھوڑی بھی ایکسرسائیز کرنے کے بعد تھک جاتے ہیں۔

نتائج سے یہ بھی پتہ چلا کہ نابالغ بچوں کے جسمانی اعضاء پروفیشنل ایتھلیٹ سے بھی زیادہ بہتر انداز میں کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔

ماہرین نے تجویز دی کہ نابالغ بچوں کی شرارتوں اور کھیل کود کو درست انداز میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو بچپن سے ہی اسپورٹس مین بننے کی طرف راغب کریں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوغت سے قبل ہی بچوں کو پروفیشنل انداز میں اسپورٹس کی تربیت دی جائے، تاکہ وہ بالغ ہونے کے بعد ایک بہترین کھلاڑی بن کر سامنے آئیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں