آپ کی ساس سے لے کر آپ کے پڑوسی تک ہر کسی کے پاس اس حوالے سے رائے ہے کہ آپ والدین کے طور پر کیا غلط کر رہے ہیں اور زیادہ تر والدین اپنے ہی بدترین ناقد ہوتے ہیں۔

لیکن ہمیں آپ پر تنقید کرنے والوں کی بریگیڈ میں سے بننے کا کوئی شوق نہیں۔ ہم خود بھی والدین ہیں اور ہم اپنے پیشے کی وجہ سے ہر وقت والدین سے ملتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ 'پرفیکٹ والدین' نامی کوئی چیز نہیں ہوتی۔

مگر پھر بھی کچھ عام غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جو ہر کوئی اپنے بچوں کے حوالے سے کرتا ہے اور سائنس دکھاتی ہے کہ اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لاکر ہم خود کے لیے اور اپنے بچوں کے لیے زندگی آسان بنا سکتے ہیں۔

چنانچہ والدین کی زندگیاں آسان بنانے کے لیے ٹاپ 5 ایسی چیزوں کی فہرست ہے جن میں ہم سب گڑبڑ کر دیتے ہیں۔

1: جب ہم اپنے بچوں کے بارے میں فکرمند یا خوفزدہ ہوں تو ہم ان پر اپنی گرفت مضبوط کر لیتے ہیں

یہ مکمل طور پر قابلِ فہم ہے۔ تمام والدین کبھی نہ کبھی اپنے بچوں کے ساتھ خود کو ہجوم میں پاتے ہیں اور ہجوم جتنا بڑا ہو، اپنے بچوں کو اتنی ہی مضبوطی سے پکڑ کر اپنے قریب رکھتے ہیں تاکہ وہ گم نہ ہوجائیں۔ مگر جب وہ بڑے ہوجائیں تو ہمیں اپنی گرفت ڈھیلی کرنی چاہیے اور یہی چیز ہم اکثر بھول جاتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر بچے اسکول میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے اور ہمیں خوف ہو کہ وہ یونیورسٹی میں پہنچنے کے اپنے مواقع کھو رہے ہیں، تو ہم اپنے آپ کو جیلر بنا لیتے ہیں، ان کی ہر سرگرمی پر نظر رکھتے ہیں، ان کے ہر امتحان سے متعلق ان سے سوالات کرتے ہیں، ان کے ہر ٹیچر سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔

مگر مایہ ناز ماہرینِ نفسیات ایڈورڈ ڈیسی اور رچرڈ ریان کی تحقیق کے مطابق اندرونی جذبے کی تیاری میں سب سے اہم جزو خودمختاری ہے۔ ایک ایسا بچہ جو پیچھے رہتا جا رہا ہے، اسے اپنی زندگی پر مزید کنٹرول دینے کی ضرورت ہے، چھیننے کی نہیں۔

اس کے علاوہ گلڈا جنسبرگ اور ان کی ساتھیوں کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اینگزائٹی کے شکار والدین زیادہ تنقیدی اور کنٹرول چاہنے والے ہوتے ہیں اور جب والدین سکون کی حالت میں ہوں، تو بچے بھی پُرسکون ہوتے ہیں اور اینگزائٹی کے شکار ہونے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔

مگر ان کے پاس ضرور موجود رہیں اور انہیں مدد موجود ہونے کا یقین ضرور دلائیں۔ سادہ سے الفاظ میں یہ کہنا بھی کافی پُراثر ہوگا کہ ’میں آپ کے لیے یہاں موجود ہوں اور مجھے بھروسہ ہے کہ آپ اپنی زندگی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے آپ بہتر فیصلے لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘

لیکن جیلر بن جانا وہ منفی عمل ہے جس پر آپ کا پورا اختیار ہے لیکن مشکلات کے شکار بچے کو بحال ہونے کے لیے جیلر کی نہیں احساسِ تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔

2: ہم مان لیتے ہیں کہ بڑے ہمیشہ بچوں سے زیادہ بہتر فیصلے لیتے ہیں

ایک بار پھر یہ قابلِ فہم ہے کہ ہم ایسا کیوں سوچتے ہیں۔ ہمارے پاس زیادہ تجربہ ہوتا ہے اور ہماری ذہنی نشونما زیادہ ہوتی ہے۔ مگر ہم اپنے بچوں کے حوالے سے سب سے بہتر ماہر نہیں ہوتے، بلکہ وہ خود ہوتے ہیں۔ کوئی بھی انہیں اس طرح نہیں جان سکتا جس طرح کہ وہ خود کو جانتے ہیں، یا یہ کہ انہیں خود کے لیے کیا چاہیے ہوتا ہے۔

ایک زبردست تحقیق نے 9 سے 21 سال کے عمر کے بچوں کی فیصلہ لینے کی صلاحیت کا جائزہ لیا۔ تحقیق میں شرکاء سے پوچھا گیا کہ وہ کسی ایسے لڑکے سے کس طرح پیش آئیں گے جو اپنے والدین سے بات کرنے سے انکاری ہے یا کئی ہفتوں سے اپنے کمرے سے باہر نہیں آ رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 14 سالہ بچوں نے بھی ویسے ہی فیصلے لیے جو کہ 18 یا 21 سالہ بچوں نے لیے اور ان فیصلوں میں ماہرین کی تجاویز سے کافی مماثلت تھی (یعنی کہ لڑکے کو کسی ماہرِ نفسیات سے تھیراپی کروائی جائے۔)

9 سال کی عمر کے آدھے بچوں نے بھی اسی آپشن کا انتخاب کیا اور جہاں انہیں فیصلہ لینے میں مشکل ہوئی، وہ علم کی کمی کی وجہ سے تھی، ضروری نہیں کہ ان کی لڑکے کے بارے میں رائے غلط تھی۔

جہاں زیادہ تر لوگوں کی معقول فیصلہ سازی کی صلاحیت بلوغت کے درمیانی سالوں میں ہوتی ہے، وہ ہم جیسے جیسے بڑے ہوتے جاتے ہیں ہم بہتر فیصلہ ساز بھی بنتے ہیں کیوں کہ ہمارے جذبات معمول پر آنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہم کس وقت فیصلہ لینے کے لیے بہت زیادہ جذباتی یا بہت زیادہ تھکے ہوئے ہیں اور اپنے جذبات معمول پر آنے تک فیصلے کو مؤخر کرسکتے ہیں۔

ہم اپنے بچوں کے لیے جو سب سے بہترین چیز کرسکتے ہیں وہ یہ کہ انہیں ان کی فیصلہ سازی کے وقت جذبات کا جائزہ لینے میں مدد دیں۔ یہاں تک کہ اگر آپ کا ایسا بچہ ہے جسے اپنی فیصلہ سازی میں بہتر ہونے کی ضرورت ہے، تو وہ مشق کے ذریعے زیادہ جلدی بہتر ہوجائے گا۔

3: اگر ہمارے بچے بہت تناؤ کا شکار یا اپ سیٹ ہیں، تو ہمیں ان کی مدد کرنے پر توجہ دینی چاہیے، نہ کہ خود پر

اگر ہمیں ان تمام والدین کے لیے ایک پاؤنڈ ملتے جو کہتے ہیں کہ ’میں اپنے شریکِ حیات کے ساتھ باہر نہیں جاسکتا/جاسکتی کیوں کہ میرے بچے کو میری بہت ضرورت ہے‘ تو ہمارے پاس اتنے پاؤنڈز اکھٹے ہوجاتے کہ اس سے کنواں بھرا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم ہمارے بچوں سے متعلق (یا چلیں کسی بھی چیز سے متعلق) تناؤ کا شکار ہوں، تو یہ تناؤ ہمارے بچوں میں بھی سرائیت کر جاتا ہے۔ اسے اسٹریس کنٹیجیئن کہا جاتا ہے۔

ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ہمارے بچوں کے ساتھ پیار کا اظہار کرنے کے علاوہ مؤثر والدین بننے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی خود کے تناؤ پر قابو رکھیں۔ سیاق و سباق یہ ہے کہ والدین کی اپنی اسٹریس مینیجمنٹ اپنے شریکِ حیات کے ساتھ اچھا تعلق رکھنے، بہتر تعلیمی مواقع فراہم کرنے اور اپنے بچے کے تحفظ کو یقینی بنانے سے بھی زیادہ اہم ہے۔

اسٹریس چھوت کی بیماری کی طرح ہے۔ وائرس کی طرح اسٹریس ایک آبادی میں سرایہت کر جاتا ہے اور اپنے راستے میں آنے والے ہر کسی کو متاثر کرتا اور انفیکٹ کرتا ہے۔ یہ 'سیکنڈ ہینڈ اسٹریس' اپنے اصل سرچشمے سے بھی زیادہ دیر تک قائم رہ سکتا ہے اور یہ قابلِ فہم ہے۔

اگر آپ اپنی زندگی میں کوئی تناؤ والی چیز محسوس کریں، مثلاً سر پر منڈلاتی ہوئی ایک ڈیڈلائن، تو شاید آپ اس کے حوالے سے کچھ کرسکتے ہوں مگر آپ کا بچہ جو آپ کی اسٹریس سے متاثر ہے، وہ اس حوالے سے کچھ نہیں کرسکے گا۔

4: فارغ وقت میں کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے

ہم جانتے ہیں کہ ہمارے اندر یہ چاہت موجود ہوتی ہے کہ ہم اپنے بچے کو صوفے پر پڑا ہوا خلاؤں میں گھورتا ہوا دیکھتے ہیں تو ساتھ ہی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ’کیا آپ کو اس وقت پڑھنا یا کوئی اور کارآمد کام نہیں کرنا چاہیے؟‘

مگر حقیقت میں دن میں خواب دیکھنا ایک اچھا کام ہے اور وقت کا زیاں نہیں۔ جب ہم کسی ایک کام کر غور کرنے کے بجائے خیالات کی رو میں بہہ رہے ہوتے ہیں تو اس وقت ہم اپنے دماغ کے اس انداز کو ایکٹیویٹ کر دیتے ہیں جسے دماغ کا ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک کہا جاتا ہے۔ جب آپ کا ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک سرگرم ہو، تو آپ اپنے بارے میں، اپنے ماضی و مستقبل کے بارے میں، اور ان مسائل کے بارے میں سوچتے ہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تمام خیالات اپنی ذات کے بارے میں شعور پیدا کرنے کے لیے ضروری ہیں۔

اس وقت آپ دوسرے لوگوں کے احساسات کے بارے میں بھی سوچتے ہیں جو رحم دلی کے جذبات پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی خود پسندی پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ اس کی کچھ وجہ بچوں کے پاس ’کچھ نہ کرنے کے لیے‘ بہت کم وقت کی موجودگی بھی ہے۔

فارغ وقت ذہنی طور پر صحتمند زندگی کے لیے ضروری ہے اور یہ غیر ارادی طور پر ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ والدین کہیں کہ ’جاؤ اپنے ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک کو ایکٹیویٹ کرلو‘۔ مگر ہم ان کی اپنے آپ کے لیے کچھ خاموش و فارغ وقت نکالنے کے لیے حوصلہ افزائی ضرور کرسکتے ہیں۔

جہاں ہر کسی کو روزانہ فارغ وقت کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں یہ بات ہر شخص پر منحصر ہے کہ اسے کتنا فارغ وقت چاہیے۔ اس حوالے سے اپنے بچے کی مدد کریں کیوں کہ کچھ بچوں کو اپنی توانائی بحال کرنے کے لیے دوسروں سے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے، جس طرح جب وہ چھوٹے ہوتے ہیں تو کچھ بچے دوسروں سے زیادہ سوتے ہیں۔

5: ہوم ورک کرنا دیگر مشغلوں سے زیادہ اہم ہے

دماغی سائنس کہتی ہے کہ ایسا ضروری نہیں ہے اور اس کی وجہ اندرونی تحریک کے کام کرنے کے طریقہ کار سے ہے۔

آپ اندرونی تحریک پر زبردستی نہیں کرسکتے۔ اگر آپ اپنے بچے میں ایسا کام کرنے کی تحریک چاہتے ہیں جس کے حوالے سے وہ پُرجوش نہیں، مثلاً ہوم ورک، تو اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اس کی وہ کام کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کریں جسے کرنے کی اسے تحریک حاصل ہے۔ وہ جتنا وقت اپنے پسندیدہ مشاغل میں لگائیں گے، مجموعی طور پر اتنی ہی تحریک ان کے ذہن میں پیدا ہوگی۔

اس کے علاوہ ہوم ورک سے متعلق بچوں سے لڑنا آپ کے اور آپ کے بچے کے تعلق میں خرابی کا سبب بن سکتا ہے اور اس حقیقت کی نفی ہے کہ وہ، نہ کہ آپ، ان کے ہوم ورک کے لیے ذمہ دار ہیں۔

ایک کنسلٹنٹ کی طرح پیش آئیں، نہ کہ ایک باس کی طرح۔ اپنے بچے کو ہوم ورک میں مدد کی پیشکش کریں اور اس کے لیے روز شام کو وقت مختص کریں، مگر ان پر واضح کردیں کہ یہ ان پر ہے کہ وہ آپ کی مدد کب چاہتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں