اسلام آباد: پاکستان میں حکومت کی جانب سے ٹوئٹر پر عوام کے لیے میسر مواد کو آئینی دائرہ کار کے تحت محدود کرنے سے ناکامی پرملک میں مائیکرو بلاگنگ کی معروف ویب سائٹ ٹوئٹر کے بلاک ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔

کابینہ سیکریٹریٹ میں ہونے والے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے بتایا کہ سماجی رابطے کی دیگر ویب سائٹس یوٹیوب اور فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے حکومتی درخواست پر متنازع مواد ہٹانے کی درخواست پر عمل کیا۔

لیکن ٹوئٹر کی جانب سے حکومتی درخواستوں پر عمل درآمد میں کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔

یہ بھی پڑھیں: ٹوئٹر پر ذاتی پوسٹس کم، خبریں زیادہ

پی ٹی اے کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) برائے انٹرنیٹ پالیسی اور ویب اینالسس نثار احمد نے کمیٹی کا آگاہ کیا کہ ہماری جانب سے متنازع مواد ہٹانے کی سینکڑوں درخواست ارسال کیے جانے پرٹوئٹر نے محض 5 فیصد درخواستوں پر عمل کیا بقیہ تمام درخواستیں نظر انداز کردی گئیں۔

خیال رہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ریاست اس کے عوام اور اداروں کے خلاف توہین آمیز تبصروں پر جرمانہ عائد کرنےکے حوالے سے غور کیا گیا۔

نثار احمد کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی اے کی جانب سے ٹوئٹر کو حتمی نوٹس بھیجنے کی ہدایت کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ یا تو حکومتی درخواستوں پر غور کریں بصورت دیگر ملک میں ویب سائٹ کی بندش کا سامنا کریں۔

مزید پڑھیں: شدت پسند مواد: فیس بک، ٹوئٹر، یو ٹیوب، مائیکروسافٹ متحد

اس سلسلے میں کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستانی عوام میں ٹوئٹر فیس بک کے مقابلے میں زیادہ مقبول نہیں چناچہ پابندی لگانےسے انہیں کوئی خاص نقصان نہیں پہنچے گا، تاہم ان کا کاروبار متاثر ہوسکتا ہے۔

ایک سینیئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’عدالت کی جانب سے ٹوئٹر کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، جس سے ان کے کاروبار کم ہوجائے گا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس معاملے میں فیس بک کی جانب سے بھرپور تعاون دیکھنے میں آتا ہے اور جب حکومت کی جانب سے کسی متنازع مواد کو ہٹانے کی درخواست ارسال کی جاتی ہے تو اس پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹوئٹر کی تاریخ کی سب سے بڑی تبدیلی

پاکستان کے تحفظات کا جائزہ لینے کے لیے فیس بک نے پاکستان سے ہی تعلق رکھنے والا ایک نمائندہ بھی تعینات کیا ہوا ہے، جو مقامی روایات ثقافت سے آگاہ ہے اور اس کی روشنی میں شکایات کے سلسلے میں فیس بک کی رہنمائی کرتا ہے۔

اس کے علاوہ یو ٹیوب کی جانب سے مقامی سطح پر مختلف ویب سائٹ کی خدمات لی جارہی ہیں جس سے متنازع مواد کی موجودگی کا مسئلہ اب موجود نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ کمپنیاں نہ صرف پاکستان میں فروغ پانے کی خواہشمند ہیں بلکہ تربیتی پروگرام کے ذریعے ترقی پذیر علاقوں کی موجودہ حالت سدھارنے کے لیے بھی کام کررہی ہیں۔

مزید پڑھیں: ٹوئٹر فیس بک کے نقش قدم پر

اس حوالےسے جب متوقع حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت آزاد ذرائع ابلاغ پر کسی بھی قسم کی قدغن لگانے کے خلاف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ متنازع مواد نہیں دیکھنا چاہتے انہیں چاہیے کہ وہ اس مواد کی تلاش نہ کریں، سوشل میڈیا صرف تفریح کے لیے نہیں، اس سے کئی کاروبار اور گھریلو معاملات وابستہ ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر پابندی عائد کیے جانے سے سماجی اور معاشی طور پر نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔


یہ خبر 16 اگست 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

زاہد بٹ Aug 16, 2018 11:31am
They should BAN all the social media network in Pakistan, unless they create Local administrative system in Pakistan. (just like India)