وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ سرحد کی خلاف ورزی کسی کے مفاد میں نہیں بلکہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر سیز فائر برقرار رہنا دونوں ممالک کے لیے بہتر ہے۔

ملتان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'جارحانہ گفتگو کرنے والے بتائیں کہ کیا مذاکرات کے علاوہ کوئی اور راستہ ہے؟'

سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کی رپورٹ کے مطابق شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بھارت کا بڑا طبقہ سمجھتا ہے کہ بھارت کو اپنی پالیسی تبدیل کرنا ہوگی۔

مزید پڑھیں: لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ،بزرگ شہری جاں بحق

انہوں نے کہا کہ بھارتی جارحانہ پالیسی سے نتائج حاصل نہیں ہوئے، بھارت کو اپنی جارحانہ پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

انہوں نے افغانستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کی مذمت کی اور کہا کہ ہم اس حوالے سے تفصیلات جمع کررہے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کی تھی،عمران خان کی ٹیم ان کا وژن آگے بڑھائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: امید ہے امریکا جلد پاک فوج کا تربیتی پروگرام بحال کردے گا، علی جہانگیرصدیقی

انہوں نے کہا کہ ملک کے معاشی حالات کسی سے پوشیدہ نہیں، خارجہ مسائل بھی قوم کے سامنے ہیں۔

سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ سدھو بھارت کے نامور کھلاڑی ہیں، وہ عمران خان کی دعوت پر پاکستان تشریف لائے اور یہاں آنے کے بعد انہوں نے برملا کہا کہ جو محبت لائے تھے اس سے کئی گنا زیادہ لے کر جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حالات بدلنے کیلئے جرات چاہیے ہوتی ہے اور سدھو نے جرات کا مظاہرہ کیا، سدھو نے جن جذبات کا اظہار کیا اسے سمجھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سدھو روانگی سے پہلے جو کچھ کہہ گئے اس پر غور کی ضرورت ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پورے برصغیر میں پانی کا بحران جنم لے رہا ہے، پانی کے مسئلے پرمل بیٹھ کر حل تلاش نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟

انہوں نے سوال کیا کہ کشمیر کا مسئلہ کس کو دیکھنا ہے، کس کی ذمہ داری ہے؟

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکا اور پاکستان کے سفارتی تعلقات کی لمبی تاریخ ہے، امریکا اور پاکستان ایک دوسرے کے بہت قریب رہے ہیں تاہم پاک امریکا تعلقات میں اتار چڑھاؤ بھی آتا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو جن چیلنجز کا سامنا ہے اس کے لیے پاکستان اہم ملک ہے، امریکا کے ساتھ اعتماد کی خلیج کو دور کرنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں