وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے پاکستان میں پیدا ہونے والے بنگالیوں اور افغانیوں کو شہریت دینے کے اعلان پر قومی اسمبلی میں ایک نئی بحث چھڑگئی، جہاں اپوزیشن اور حکومتی اتحادی جماعت نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے صدر سردار اختر مینگل نے کہا کہ حکومت اعلان کر دے کہ پاکستان عالمی یتیم خانہ ہے، بلوچ عوام کو ان کے اپنے ہی ملک میں انسان تک نہیں سمجھا جاتا۔

قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور حکومت کی اتحادی جماعت بی این پی مینگل کی جانب سے پناہ گزینوں کو شہریت دینے کے معاملے پر مشترکہ طور پر توجہ دلاؤ نوٹس جمع کرایا گیا۔

پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے وزیر اعظم کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیر اعظم نے کراچی کے عوام کے جذبات مجروح کرتے ہوئے 'بے حس' بیان دیا‘۔

مزید پڑھیں: پناہ گزینوں کے بچوں کو پاکستانی شہریت کا حق ہے، وزیر اعظم

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کا یہ بیان شہر قائد کی حساسیت کو جانے بغیر سامنے آیا ہے جہاں وسائل پر کئی بار خانہ جنگی دیکھی گئی ہے۔

نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ عمران خان مدینہ جیسی فلاحی ریاست کی بات کرتے ہیں جبکہ انہیں شاید معلوم نہیں کہ کئی دہائیوں سے سعودی عرب میں مقیم پاکستانی مہاجرین آج تک شہریت حاصل نہیں کر سکے ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت ایسا کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ملک میں رہنے والے پناہ گزینوں اور مہاجرین کی معلومات اکٹھا کرے۔

پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھی وزیر اعظم کے بیان پر تنقید کی اور اسے ’غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’تمام پناہ گزینوں کو ان کے ملک واپس بھیجا جائے‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ وزیر اعظم بننے کے بعد صرف اپنی جماعت کی نہیں بلکہ پورے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں، وہ ان حساس معاملات پر پارٹی سربراہ کے طور پر یو ٹرن لے سکتے ہیں لیکن وزیر اعظم کے طور پر نہیں‘۔

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے صدر سردار اختر مینگل نے بھی اس پیش کش کو مسترد کیا اور قومی اسمبلی میں اس معاملے کو ایوان میں زیر بحث لانے کا مطالبہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کسی یوٹرن کے جھنجٹ میں نہیں پڑتے لیکن جن کو ڈالر دے کر واپس بھیجا جاتا ہے وہ پانچ سو روپے چیک پوسٹ والوں کو دے کر واپس آجاتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت اعلان کر دے کہ پاکستان عالمی یتیم خانہ ہے‘۔

سردار اختر مینگل نے کہا کہ حکومت بنگالیوں اور افغانیوں کو انسانی حقوق کی بنیاد پر شہریت دینے پر غور کررہی ہے جبکہ بلوچ عوام کو ان کے اپنے ہی ملک میں انسان تک نہیں سمجھا جاتا۔

مزید پڑھیں: ’کیسے سمجھائیں کہ ام پاکستانی ہے، بس شہریت نہیں ہے‘

پاکستان تحریک انصاف کی رہنما اور وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے پیپلز پارٹی اور بی این پی کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراض پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اس معاملے پر کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے بحث کرنے پر تیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے اختر مینگل سے ملاقات کرکے یقین دہانی کرائی تھی کہ فیصلہ کیے جانے سے قبل تمام جماعتوں سے مشاورت کی جائے گی۔

شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے اس حوالے سے معلومات اکٹھا کرنا شروع کردی ہیں جسے جلد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔

انہوں نے گزشتہ حکومت کو اس معاملے کو نہ اٹھانے پر تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پیپلز پارٹی نے ایک دہائی سے زیادہ اقتدار میں رہنے کے باوجود کراچی میں رہنے والوں کی معلومات اکٹھا کرنے سے گریز کیا۔

انہوں نے نفیسہ شاہ کے مدینہ ریاست کے مبہم بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب مدینہ کی اس ریاست کی نمائندگی نہیں کرتی جس کے بارے میں وزیر اعظم نے بیان دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہریت ایکٹ 1951 پاکستان میں پیدا ہونے والے تمام افراد کو شہریت دینے کا کہتی ہے۔

شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ ’آپ کو یہ بات پسند آئے یا نہیں لیکن قانون پاکستان میں پیدا ہونے والے افراد کو شہریت دینے کا کہتا ہے تاہم یہ ایوان اس قانون کو تبدیل کرسکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان پناہ گزینوں کو جبری طور پر ملک بدر نہیں کیا جاسکتا جبکہ بنگالیوں کو بنگلہ دیش میں بھی شہریت نہیں ملے گی کیونکہ انہوں نے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں