چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے چند پیسوں کے لیے تعلیمی نظام کا بیڑا غرق کردیا گیا ہے لیکن اب ہم تعلیم پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں اور ادھر کسی کو مال بنانے نہیں دیا جائے گا۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے نجی یونیورسٹیوں سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ مجاہد کامران آپ کس چکرمیں پڑ گئے؟ یہ وقت آپ کے پے بیک کا ہے، آپ کو اس عمر میں کتابیں لکھنی چاہئیں اور مفت لیکچر دینے چاہئیں۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا پنجاب بھر کی نجی جامعات سے متعلق ازخود نوٹس

اس پر مجاہد کامران نے جواب دیا کہ میں تو ملازمت کر رہا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چند پیسوں کے لیے تعلیمی نظام کا بیڑہ غرق کردیا، آپ کے کالجز اور ایگزیکٹ میں کیا فرق رہ گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر تعلیمی ادارے کا سربراہ کہتا ہے کہ ہمارا ادارہ بہتر ہے، جب وہاں سروے کروایا جاتا ہے تو آوے کا آوا بگڑا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بچوں کو تعلیم دینی ہے نہ کہ ڈگری کے نام پر کاغذ ان کے ہاتھ میں پکڑانا ہے، ہم تعلیم پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، ادھر کسی کو مال بنانے نہیں دیا جائے گا۔

اس موقع پر عدالت نے یونیورسٹی آف لاہور، سپیرئر میڈیکل کالج میں فراہم کی گئی سہولیات کی تحقیقات کرنے کا حکم دیتےہوئے قانونی ماہر ظفر اقبال کلانوری اور ڈائریکٹر ایف آئی اے وقار عباسی پر ٹیم تشکیل دے دی۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ہفتے میں دونوں تعلیمی اداروں میں میڈیکل فکیلٹی سمیت سہولیات کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کریں اور گورنر پنجاب اور وزیر اعلیٰ یونیورسٹیز کے چارٹرڈ کرنے سے متعلق تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس ثاقب نثار نے پنجاب بھر کی نجی جامعات سے متعلق ازخود نوٹس لیا تھا۔

چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب صوبے میں نجی یونیورسٹیز سے متعلق تمام ریکارڈ عدالت میں پیش کریں، جبکہ متعلقہ یونیورسٹیز کے ساتھ ملحقہ کالجز کی تفصیلات بھی پیش کی جائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں