اسلام آباد: متحدہ عرب امارات کو 150 عقابوں کی برآمد کی اجازت پر ماہرین نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے پاس اس طرح کے فیصلوں کا اختیار نہیں ہے کیونکہ ہجرت کرکے آنے والے پرندے ناپید ہورہے ہیں۔

وزارت خارجہ کی جانب سے 27 ستمبر کو جاری نوٹی فکیشن کے مطابق دبئی کے نائب صدر و وزیر اعظم شیخ محمد بن راشد المکتوم کے ذاتی استعمال کے لیے 150 عقابوں کو کراچی ایئرپورٹ سے باہر لے جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کی غیر موجودگی میں میڈیا امور کو دیکھنے والی خدیجہ حیات کا کہنا تھا کہ وہ متحدہ عرب امارات کو عقابوں کی برآمد کی اجازت کے حوالے سے لاعلم ہیں۔

ڈان کے رابطہ کرنے پر انہوں نے کہا کہ متعلقہ حکام سے جواب موصول ہونے سے قبل اجازت نامے پر کوئی بات کرنا ان کے لیے ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ‘مجھے تحریری طور پر درخواست کرنا پڑے گی اور تحریری جواب میں کچھ وقت لگ سکتا ہے، تاہم میں زبانی طور پر معلومات حاصل کرکے جواب دوں گی’۔

یہ بھی پڑھیں: بحرین کے بادشاہ کو نایاب پرندے تلور کے شکار کی اجازت

خدیجہ حیات نے اس خبر کے شائع ہونے تک کوئی جواب نہیں دیا۔

پاکستان وائلڈ لائف فیڈریشن کے چیئرمین صفوان شہاب احمد نے ڈان کو بتایا کہ عقابوں کی برآمد کی اجازت کا یہ پہلا موقع نہیں ہے، اس طرح کی منظوریاں ماضی میں بھی کئی مواقع پر دی گئی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اجازت نامے میں پرندوں کے نام درج نہیں ہوتے اسی لیے کوئی نہیں جانتا کہ کون سے پرندوں کو برآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے، اجازت نامے میں نام درج ہونا چاہیے تاکہ کسٹم عہدیدار پرندوں کی شناخت کرسکیں’۔

برآمد کیے جانے والے شکاری پرندوں کی 5 اقسام ہیں جن میں سیکر فالکن، شاہین فالکن، لیگر فالکن، پریگرین فالکن اور گولڈن ایگل شامل ہیں۔

صفوان شہاب احمد نے کہا کہ ‘یہ پرندے بالخصوص تلور شکار کے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن وہ قدرتی طور پر ایکو سسٹم کو متوازن رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اوسطاً فی عقاب ایک کروڑ روپے پر بیچے جاتے ہیں، ہم اس حوالے سے کہہ چکے ہیں کوئی سننے والا نہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ عقاب پاکستان کا مقامی پرندہ نہیں ہے بلکہ دو راستوں سے ہجرت کر کے یہاں آتا ہے۔

مزید پڑھیں:تلور اب نایاب پرندہ نہیں رہا، پنجاب حکومت کا دعویٰ

چیئرمین پاکستان وائلڈ لائف فیڈریشن کا کہنا تھا کہ ‘پہلا روٹ وسطی ایشائی ممالک سے ہے جو انڈس فلائی زون کہلاتا ہے اور دوسرا راستہ افریقہ سے شروع ہوتا ہے جہاں سے یہ پرندے براستہ یمن اور بحیرہ عرب بلوچستان پہنچتے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 500 عقاب داخل ہوتے ہیں اور ہم نے ان کی بروقت نگرانی کے ذریعے تحفظ کے لیے ٹرانسمیٹر نصب کرنے کی تجویز دی تھی’۔

صفوان شہاب احمد کا کہنا تھا کہ گو کہ پاکستان نے پرندوں کے تحفظ کے حوالے سے کئی عالمی کنونشنز پر دستخط کر رکھے ہیں، تاہم قانون سازی اور تصدیق سے جڑے تین اقدامات تاحال کرنے باقی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان کو عقاب کی برآمد روک دینی چاہیے، اگر بااثر افراد کو منع نہیں کر سکتے تو ترجمان دفتر خارجہ کو چاہیے کہ وہ برآمد ہوانے والے پرندوں کے نام واضح کرے، مزید برآں کسٹم اہلکاروں کو پرندوں کی پہچان کے لیے تربیت دینی چاہیے’۔


یہ خبر 2 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں