لاہور : وزیراعظم عمران خان کی اعلان کردہ 100 روزہ پالیسی میں کم آمدن والے افراد کو ابتدائی طور پر 5 لاکھ گھروں کی تعمیر کے لیے پنجاب حکومت نے بپلک پرائیویٹ شروع کرنے کی کوشش کی ہے۔

صوبائی حکومت کے عہدیداران کا کہنا تھا کہ پرویز الٰہی کی حکومت نے پنجاب میں پروجیکٹ ماڈل منظور کیا تھا اور شہباز شریف کی حکومت نے اپنے ترقیاتی پروگرامز بنانے کے لیے کمپنی ماڈلز کا رخ کیا تھا۔

اعلیٰ عہدیداران کے مطابق وفاقی حکومت نے ملک بھر میں 50 لاکھ کم لاگت کے گھر تعمیر کرنے اور ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا اعلان کیا تھا۔

اس اعلان کے تحت صوبہ پنجاب کو کئی لاکھ ملازمتیں اور کم لاگت کے 10 لاکھ گھر ملنے چاہئیں جس کے لیے ابتدائی طور پر صوبے میں 5 لاکھ گھر اور 10 لاکھ ملازمتوں سے متعلق کام جاری ہے۔

مزید پڑھیں : ہاؤسنگ فنانس میں 16 فیصد اضافہ

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ وفاق کے ان منصوبوں کے لیے فنڈز کی فراہمی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ کم لاگت کے مکانات کی تعمیر کے لیے لاہور موٹروے کے علاقے کی زمین مختص کی گئی تھی جہاں سرکاری ملازمین سمیت دیگر افراد کی تںخواہوں کے حساب سے مکانات کی تعمیر کی جائے گی اور انہیں قسطوں میں ادائیگی کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے ملازمتیں دیے جانے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا ، اس لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکٹر میں ملازمتیں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ دیگر شعبہ جات میں تاحال کوئی ملازمت نہیں۔

اعلیٰ عہدیداران نے کہا کہ حکومت اعلان کرے گی کہ 2008 میں جب پرویز الٰہی کی حکومت ختم ہوئی تو اس وقت پنجاب کے پاس ایک کھرب روپے تھے لیکن اب ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ اعلان کریں گے کہ گزشتہ حکومت نے اپنے ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر کے لیے کنٹریکٹروں کو ایڈوانس میں ادائیگی کی تھی لیکن قانونی وجوہات کی بنیاد پر ان کی تعمیر ممکن نہیں۔

یہ بھی پڑھیں : اسٹیٹ بینک ہاؤسنگ فنانس کو فروغ دینے کے لیے سرگرم

افسران نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی ڈیلنگ میں شفافیت اور ایمانداری کے لیے ای پیمنٹ کا ںظام متعارف کروانے کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اس ضمن میں ایک مالیاتی ذمہ داری سے متعلق قانون متعارف کرانے کا ابتدائی خاکہ بھی تیار کیا گیا تھا تاکہ حکومتی عہدیداران اور کنٹریکٹر سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو کسی منصوبے میں دیر ہونے اور قومی خزانے میں مختص کیے گئے اخراجات سے تجاوز کرنے کی صورت میں ذمہ دار ٹھہرایا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی پالیسی اسکولوں پر بھی اثر انداز ہوں گی، گزشتہ حکومت نے 10 سال میں سرکاری اسکولوں کی حالتِ زار کی بہتری کے لیے ایک کھرب روپے خرچ کیے تھے لیکن اسکول میں داخلوں کا اندراج کم ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ تحریک اںصاف کی حکومت نے اسکول کے معاملات میں کمیونٹی کی مداخلت شامل کرکے اسے بہتر کرنے کی کوشش کی۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 8 اکتوبر 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں