اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے 18 جولائی کو کم لاگت میں گھروں کی تعمیر کی پالیسی کا اعلان کرنے کے بعد گھروں کی کمی کے مسائل کے حل کے لیے حکومت اور پاکستان مورگیج ری فنانس کمپنی سے بات چیت کی ہے۔

اس سے قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی جس میں ہاؤسنگ سیکٹر کو درپیش مسائل اور اس مسئلے کو ہاؤسنگ فنانس پالیسی کے ذریعے حل کرنےکے لیے ممکنہ اقدامات کو اجاگر کیا گیا تھا۔

یہ رپورٹ شائع کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ہاؤسنگ کی بڑھتی ہوئی طلب اور رسد کے درمیان خلا کو پُر کرنے کے لیے کم لاگت میں گھروں کی تعمیر کرنے کی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ملکی آبادی میں سال 1998 سے اوسط شرح 2.4 فی فیصد اضافہ ہورہا ہے جبکہ نئے گھروں کی سالانہ طلب میں تقریباً 7 لاکھ کا اضافہ ہورہا ہے،جس میں اس بڑھتی ہوئی طلب کا آدھا حصہ ہی پورا کیا جاتا ہے۔

مجموعی طور پر ملک میں فی الحال تقریباً ایک کروڑ گھروں کی قلت کا سامنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق بینکوں اور ہاؤسنگ بلڈنگ فنانس کارپوریشن لمیٹڈ کا ہاؤسنگ فنانس حجم تقریبا ً 83 ارب روپے ہے، جو گروس ڈیولپمنٹ پروڈکٹ (جی ڈی پی) کا صرف 0.5 فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں بہت کم ہیں ۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رواں سال 18 جولائی کو کم لاگت کی ہاؤسنگ فنانسنگ پالیسی کا اعلان کیا اور اسٹیک ہولڈرز کو 15 دن میں اپنی تجاویز ارسال کرنے کاعندیہ دیا۔

پاکستان تحریک انصاف نے اپنے منشور میں ملک میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ یہ وسیع منصوبہ تعمیراتی صنعت سے منسلک 42 صنعتوں میں روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا کرسکتا ہے۔

1990 میں اس وقت موجود وزیراعظم نواز شریف نے بھی ایسی ہی ہاؤسنگ پالیسی کا اعلان کیا تھا تاہم ان کے اقتدار میں آنے کے بعد اس پالیسی پر عملدرآمد نہیں کیا جاسکا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ’سرمایہ کی کمی ہاؤسنگ یونٹس کی فراہمی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ‘

اسٹیٹ بینک کے مطابق کم لاگت سے گھر تعمیر کرنے کی پالیسی مارگیج انڈسٹری کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اسٹیٹ بینک نے یہ بھی بتایا کہ یہ پالیسی عالمی اطوار اور مقامی مارکیٹ کو مدںظر رکھ کے بنائی گئی ہے۔

اس پالیسی کو استعمال میں لانے کے لیے رواں سال اپریل میں پی ایم آر سی تشکیل دی گئی تھی تاکہ ملک میں گھروں کی تعمیر میں طویل المدتی قرضہ دینے کے لیے بینکوں کو سرمایہ دیا جاسکے۔

پی ایم آرسی کے شیئر ہولڈرز کا معاہدہ کراچی میں 15 اپریل 2018 کو نیشنل بینک آف پاکستان اور نجی بینکوں کے درمیان ہوا تھا جس میں 49 فیصد حصص نیشنل بینک اور 51 فیصد نجی بینکوں کے ہیں۔

پی ایم آر سی کا بنیادی مقصد اس شعبے میں ترقی کو فروغ دینے کے لیے ذرائع اور سرمایہ فراہم کرنا ہے۔

اسکے علاوہ ، ملائیشیا کے ایک ہاؤسنگ ایکسپرٹ این کے روپان کو پی ایم آر سی کا سی او ای تعینات کیا گیا تھا، انہوں نے پاکستان میں طویل المدتی سرمایہ کی کمی کو ہاوسننگ سیکٹر کی ترقی کی بڑی رکاوٹ قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں : خواتین کو قرض فراہم کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک کی اسکیم متعارف

اس سے پہلے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا تھا کہ وہ کم لاگت میں گھروں کی تعمیر کے لیے سبسیڈائزڈ فنانسنگ اسکیم متعارف کروائیں گے تاکہ سرمایہ کو کم قیمت پر یقینی بنایا جاسکے۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ’ اسٹیٹ بینک 1 فیصد کئی شرح پر بینکوں کو 10 لاکھ یا قرض کا 50 فیصد فراہم کرے گا اور قرض دہندہ کی شرح 5 فیصد ہوگی۔

سرمایہ یا قرض کا بقایا 50 فیصد حصہ بینک سے12 فیصد کی شرح پر حاصل کیا جاسکے گا۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق اسی طرح مالی سہولیات اسلامی مالیاتی اداروں کے ذریعے بھی فراہم کی جائیں گی۔


یہ خبر 5 اگست 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Aug 05, 2018 08:05pm
میں بذات خود سود کی وجہ سے بینکوں سے قرض لینے کے خلاف ہوں، تاہم نئی پالیسی میں کسی طرح سود کے عنصر کو ختم کردیا جائے۔ بینک یا کوئی اور ادارہ مناسب کوالٹی کا تعمیراتی سامان (لوہا، سیمنٹ، بجلی، پلمبنگ وغیرہ) کم قیمت پر کمپنیوں سے حاصل کریں اور کوئی کنسٹرکشن کمپنی، ٹھیکیدار 8 لاکھ کا سامان 9 لاکھ پر قرض پر لے، ایک لاکھ اپنا منافع رکھ کر گھر بنانے والے کو 10 لاکھ میں قسطوں میں گھر بنا کر دیں۔ صارف کمپنی کو رقم قسطوں میں ادا کریں۔ علما اور ماہرین معاشیات یا اسٹیٹ بینک افسران اس پر غور کریں۔ کیونکہ آج کل کی اچھی سے اچھی ’’ تنخواہ’’ میں بھی گھر حاصل کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ اگر کسی طرح عام پاکستانیوں کو گھر مل جائیں تو بہتر ہوگا۔ اس تمام عمل میں سود کا خاتمہ اور مناسب قیمت پر عام شہریوں کو گھر کی فراہمی ترجیح ہونی چاہیے۔ مناسب منصوبہ بندی کرکے کنسٹرکشن کی صنعت سے ملازمتوں کی فراہمی سمیت ملکی معیشت کو رواں کیا جاسکتا ہے۔ تاہم میں کوئی مالیاتی ایکسپرٹ یا مفتی نہیں ہوں، میرے مشورے پر عمل بھی ضروری نہیں صرف سود کی وجہ سے پریشان ہوں۔ واللہ اعلم بالصواب (اللہ تبارک و تعالی ہی بہتر جانتا ہے)۔