اسلام آباد: خصوصی عدالت میں سنگین غداری مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت نے حکم دیا کہ سابق صدر پرویز مشرف کو اگر متبادل طریقہ کار سے بیان ریکارڈ کرنے پر اعتراض ہے تو اس بارے میں تحریری طور پر آگاہ کیا جائے۔

جسٹس یاور علی کی سربراہی میں دو رکنی خصوصی بینچ نے پرویز مشرف غداری کیس کی سماعت کی۔

دورانِ سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ مشرف نے واپسی کے لیے یقین دہانی کرائی تھی ،جس پر وکیل مشرف نے جواب دیا کہ اب تو واپس نہیں آرہے انٹر پول نے بھی انکار کردیا ہے۔

جس پر استغاثہ نے اعتراض کیا کہ مشرف کی ذاتی موجودگی ہونی چاہئے اگر مشرف نہیں آتے تو قانون خود راستہ بنائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف غداری کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ

جسٹس یاور علی نے ریمارکس دیے کہ اب تو مشرف کی وطن واپسی کا معاملہ سپریم کورٹ نے اٹھا لیا ہے۔

جس پر پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ غیر موجودگی کا مطلب یہ نہیں کہ مشرف آنا نہیں چاہتے وہ آجاتے لیکن میڈیکل ایشو ہے۔

وکیل مشرف کا مزید کہنا تھا کہ مشرف کا اس کیس میں بیان ریکارڈ ہونا لازمی ہے میں سمجھتا ہوں مشرف کا آنا ضروری ہے لیکن بیماری کی وجہ سے وہ نہیں آسکتے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت بے نظیر بھٹو کیس بھی سکائپ کے ذریعے بیان ریکارڈ کرچکی ہے جبکہ بے نظیر کے قتل کیس میں گواہ مارک سیگل کا بیان بھی اسکائپ کے ذریعے ریکارڈ ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: عدالت کا سنگین غداری کیس پرویزمشرف کی عدم موجودگی میں چلانے پر غور

جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ مشرف کا بیان اسکائپ کے ذریعے ریکارڈ کیا جائے؟ جس پر پرویز مشرف کے وکیل نے جواب دیا کہ مجھے مشرف سے ہدایات لینے کے لیے وقت دیا جائےاس کے لیے مجھے تین ہفتے درکار ہونگے ۔

جسٹس یاورعلی نے ریمارکس دیے کہ اتنا وقت نہیں دے سکتے آئندہ سماعت پر بتائیں کہ مشرف کا تین سو بیالیس کا بیان ریکارڈ ہوسکتا ہے؟ اگر مشرف متبادل طریقہ سے بیان ریکارڈ نہیں کرانا چاہتے تو آگاہ کریں۔

جس پر وکیل نے جواب دیا کہ مجھے مشرف سے پوچھنا پڑے گا کہ کیا وہ اسکائپ کے ذریعے بیان ریکارڈ کراسکتے ہیں، مجھے موقع دیں کہ مشرف سے پوچھ لوں۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں پراسیکیوشن سربراہ مستعفی

جسٹس یاور علی نے ریمارکس دیے کہ اگر اسکائپ کے ذریعے بیان ریکارڈ پر اعترضات ہیں تو تحریری طور پر پیر تک عدالت کو آگاہ کریں، بعدازاں سماعت پیر 15 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

سنگین غداری کیس

مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف وزارتِ داخلہ کے ذریعے سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013 کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سابق صدر کو 24 دسمبر کو طلب کیا تھا۔

پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالت نے 18 فروری 2014 کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے تھے۔

سابق صدر پر 31 مارچ 2014 کو فردِ جرم عائد کردی گئی تھی تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، بعدِ ازاں 17 جون سے استغاثہ نے اپنے شواہد پیش کرنا شروع کیے جو 18 ستمبر کو اختتام پذیر ہوئے۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا بینچ ٹوٹ گیا

معزز عدالت نے 8 مارچ 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا۔

خیال رہے کہ عدالت نے 19 جولائی 2016 کو پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیئے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا، تاہم ان کے وکلا نے اس حکم نامے کو چیلنج کردیا تھا۔

بعد ازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

28 مارچ کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے خصوصی عدالت میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف زیرِ سماعت سنگین غداری کیس کا فیصلہ جلد سنانے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف نامعلوم بیماری کے باعث پاکستان نہیں آسکتے، ڈاکٹر امجد

29 مارچ 2018 کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت کے سابق سربراہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت سے معذرت کرلی تھی۔

یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ 8 مارچ 2018 کو استغاثہ کے وکیل محمد اکرم شیخ نے خصوصی عدالت کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں سابق وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کی غیر موجودگی میں ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت کی بھی مثال دی۔

11 جون کو سپریم کورٹ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

30 جولائی کو سنگین غداری کیس میں پراسیکیوشن کے سربراہ محمد اکرم شیخ نے استعفیٰ پیش کردیا تھا۔

10 ستمبر کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے فیصلہ کیا تھا کہ 9 اکتوبر سے کیس کی روزانہ سماعت کر کے اسے حتمی نتیجے تک پہنچایا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں