اسلام آباد: خصوصی عدالت سابق صدرِ مملکت جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کو ان کی غیر موجودگی میں بھی چلانے پر غور کر رہی ہے۔

سابق صدرِ مملکت جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت وفاقی شرعی عدالت میں قائم خصوصی عدالت منتقل کردیا گیا۔

جسٹس یاور علی کی سربراہی میں خصوصی بینچ سماعت کرے گا، جبکہ سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر عدالت پہنچ گئے۔

سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر جنرل (ر) پرویز مشرف کی وطن واپسی سے متعلق وزارتِ داخلہ کی جانب سے کیے گئے اقدامات سے عدالت کو آگاہ کیا۔

یوسف نسیم کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ انٹرپول ایک جنرل (ر) مشرف کی گرفتاری کے حوالے سے ایک خط انٹرپول کو لکھا گیا تھا تاہم بین الاقوامی ادارے نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ سیاسی معاملات نہیں دیکھتے۔

جسٹس یاور علی نے استفسار کیا کہ اگر پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو کس طرح عدالت اس کیس کا فیصلہ دے سکتی ہے؟

جسٹس یاور علی نے استفسار کیا کہ عدالت کو آئندہ سماعت پر آگاہ کیا جائے کہ کیا پرویز مشرف کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتی کارروائی کا حصہ بنانا ممکن ہے یا اس کیس کو ان کی غیر موجودگی میں ہی آگے بڑھایا جائے۔

علاوہ ازیں عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ انٹرپول کو لکھا گیا خط عدالت میں پیش کریں۔

اکرم شیخ کی کیس سے علیحدگی کی درخواست

سماعت کے دوران پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے خود کو جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس سے علیحدہ ہونے کی درخواست دائر کی جسے منظور کرلیا گیا۔

عدالت میں جمع کرائی گئی اپنی درخواست میں انہوں نے کیس سے علیحدہ ہونے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب اس کیس کی پیروی کے حوالے سے فیصلہ نئی حکومت کو کرنا ہے کہ یہ کیس مزید چلے گا یا ختم ہوجائے گا۔

اکرم شیخ نے کہا کہ انہوں نے اپنی متعدد درخواستوں میں خصوصی عدالت سے اپیل کی تھی کہ اس کیس کو نمٹاتے ہوئے اس کا جلد از جلد فیصلہ سنادیا جائے۔

بعدِ ازاں کیس کی سماعت آئندہ ماہ 10 سمتر تک ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ سنگین غداری کیس کے لیے تشکیل دیے گئے بینچ میں چیف جسٹس یاور علی کے علاوہ بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس طاہر صفدر اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف سنگین غداری کیس: جلد فیصلے کیلئے وفاقی حکومت کی اپیل

گزشتہ سماعت پر عدالت نے وزارت داخلہ سے جواب طلب کیا تھا۔

سنگین غداری کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے ذریعے سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013 کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سابق صدر کو 24 دسمبر کو طلب کیا تھا۔

اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نومبر 2013 میں ایڈووکیٹ اکرم شیخ کو پراسیکیوشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔

ابتدائی طور پر جنرل (ر) پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے ایڈووکیٹ اکرم شیخ کی بطور چیف پراسیکیوٹر تعیناتی چیلنج کی تھی لیکن غداری کیس کے لیے مختص خصوصی عدالت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس چیلنج کو مسترد کردیا تھا۔

فروری 2014 میں جنرل (ر) پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جس کے بعد عدالت نے 18 فروری 2014 کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

مارچ 2014 میں خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی سال ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔

عدالت نے 8 مارچ 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا بینچ ٹوٹ گیا

بعد ازاں عدالت نے 19 جولائی 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا۔

تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے حکم کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

یاد رہے کہ رواں سال کے آغاز میں خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعتیں دوبارہ شروع کی تھیں اور حکم دیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جائے، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے مئی میں عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا تھا۔

بعد ازاں 11 جون کو سپریم کورٹ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں