ملائیشیا کا سزائے موت ختم کرنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 11 اکتوبر 2018
فائل فوٹو۔۔۔ ڈان نیوز
فائل فوٹو۔۔۔ ڈان نیوز

ملائیشیا کی کابینہ نے ملک میں سزائے موت کا قانون ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’ اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ایک سینئر حکومتی عہدیدار نے بتایا کہ اس وقت ملک میں ایک ہزار 2 سو افراد سزائے موت پر عمل درآمد کے منتظر ہیں جس کے بعد ان تمام افراد کی سزائیں معطل ہوجائیں گی۔

ملائیشیا میں رائج برطانوی راج کے قانون کے مطابق قتل، اغوا، آتش بازی کا مواد اور ڈرگ اسمگلنگ پر سزائے موت دی جاتی ہے۔

ملائیشیا کے وزیر برائے اطلاعات گوبند سنگھ دیو نے تصدیق کی کہ کابینہ نے سزائے موت ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ میں پُرامید ہوں کہ اس قانون میں جلد ترمیم کی جائے گی‘۔

گوبند سنگھ دیو کا کہنا تھا کہ حکومت نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ عوام نے پھانسی کی مخالفت کا اظہار کیا تھا۔

مقامی میڈیا کے مطابق ملائیشیا کے وزیر لیو ویو کیونگ نے کہا کہ جن افراد کی سزائے موت کا حکم جاری کردیا گیا ہے، قانون میں تبدیلی کا اطلاق ان پر بھی ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ قانون میں سزائے موت سے متعلق اس ترمیم کو پیر (15 اکتوبر) کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ سزائے موت میں معطلی سے وہ دو خواتین بھی بچ جائیں گی جنہوں نے گزشتہ برس شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے سوتیلے بھائی کو قتل کیا تھا۔

ملائیشیا کی ایک عدالت نے گزشتہ برس کوالالمپور ایئرپورٹ پر کم جونگ نیم کے قتل میں ملوث انڈونیشین خاتون ستی ایسا اور ویتنام کی ڈوآن سی ہوانگ کے خلاف کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔

سزائے موت کا قانون ختم ہونے سے آسٹریلیا کی شہری بھی مستفید ہوں گی جنہیں رواں برس مئی میں ڈرگ اسمگلنگ کا الزام ثابت ہونے پر سزئے موت سنائی گئی تھی۔

54 سالہ خاتون کو دسمبر 2014 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ 1.1 کلوگرام کرسٹل میتھم فیٹا مائن کوالالمپور کے راستے شنگھائی سے میلبورن لے کر جارہی تھیں۔

ظالمانہ اور بے رحم سزا

گزشتہ برس اپریل میں انسانی حقوق گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی فہرست میں سزائے موت دینے والے دنیا کے 23 ممالک میں سے ملائیشیا کا دسواں نمبر تھا۔

نیو اسٹریٹس ٹائمز اخبار کے مطابق 2007 سے 2017 تک 35 افراد کو پھانسی دی گئی تھی۔

اس وقت ملائیشیا میں ایک ہزار 2 سو 67 افراد کو پھانسی ہونی ہے جو 60 ہزار قیدیوں کی آبادی کا 2.7 فیصد ہے۔

کابینہ کے اس فیصلے کو وکلا کی جانب سے خوش آئند قرار دیا گیا ہے۔

این سریندرن لائیرز فار لبرٹی رائٹس گروپ کے ایڈوائزر کا کہنا تھا کہ ’ سزائے موت بے رحم اور ناقابل تصور طور پر ظالمانہ ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ سزائے موت کا قانون ختم کرنے سے ملائیشیا کے پاس بیرونِ مملک سزائے موت کا سامنا کرنے والے ملائیشین شہریوں کا دفاع کرنے کا حق ہوگا۔

ملائیشیا کے پڑوسی ملک سنگاپور میں بھی قتل اور ڈرگ اسمگلنگ میں ملوث جرائم کے لیے سزائے موت کا قانون رائج ہے۔

گزشتہ ماہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 2017 میں ہونے والی سزائے موت سے متعلق رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق 23 ممالک میں سے چین کا پہلا نمبر یہے۔

چین کے علاوہ ایران، سعودی عرب ، عراق اور پاکستان میں 2017 میں 84 فیصد پھانسی دی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں