پاک-ترک اسکول اینڈ کالجز سسٹم کے اساتذہ کے اہل خانہ کو جبری طور پر ملک بدر کرنے کے خلاف درخواست پر لاہور ہائیکورٹ نے حکم امتناع میں توسیع کردی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا نے پاک ترک اسکول کی ڈائریکٹر اورہان ارگن کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت نے حکم امتناع میں توسیع کرتے ہوئے جلد سماعت کی درخواست پر 29 اکتوبر کی تاریخ مقرر کر دی۔

مزید پڑھیں: لاپتہ ترک خاندان ملک بدر کردیا گیا

واضح رہے کہ پاک ترک اسکول کے ڈائریکٹر کی جانب سے ہائی کورٹ میں ترک اساتذہ کے اہل خانہ کو جبری طور پر پاکستان سے نکالنے سے روکنے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

درخواست میں انہوں نے موقف اپنایا تھا کہ ترکی میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے انتشار پھیلا ہوا ہے جبکہ طیب اردوان کے مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مقیم اردوان کے سیاسی مخالفین کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ انہیں عالمی معاہدوں کے تحت تحفظ حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہم اساتذہ کی عزت کب کریں گے؟

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے بھی اس حوالے سے عدالت میں ترک اساتذہ کو بے دخل نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے تاہم اس کے باوجود ترک اساتذہ میسوت کاجماز کی فیملی کو حراست میں لے کر ملک بدر کیا گیا۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ترک اساتذہ کے اہل خانہ کو ڈی پورٹ کرنے کا حکم معطل کیا جائے اور انہیں پاکستان میں تحفظ فراہم کیا جائے۔

مزید پڑھیں: پاک ترک اسکولوں کے اساتذہ کی ملک بدری: سینیٹ نے جواب طلب کرلیا

خیال رہے کہ 2016 میں ترک صدر طیب اردوان کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک حکومت کی درخواست پر پاکستانی حکومت نے فتح اللہ گولن کی تحریک سے منسلک پاک ترک انٹرنیشنل اسکولز اور کالجز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس واقعے کے وقت پاکستان میں 32 پاک-ترک اسکولز اور کالجز موجود تھے اور ان تمام اسکولز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاہم مقامی این جی اوز نے مذکورہ اسکولز اور کالجز کے امور سنبھال لیے۔

پاک-ترک اسکولز اور کالجز میں 115 ترک شہری مختلف عہدوں پر فائز تھے جن میں سے کئی افراد کو ملک بدر کیا جاچکا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں