اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف کی نااہلی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پٹیشن پر سپریم کورٹ نے اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی منتخب رکن کو آئین کے آرٹیکل 62 (1) ایف کے تحت اس وقت تک زندگی بھر کے لیے نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک اس پر بددیانتی کا الزام ثابت نہ ہوجائے۔

جسٹس فیصل عرب کے لکھے گئے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 (1) ایف کے اطلاق سے یہ مقصد ہرگز نہیں کہ اثاثے نہ ظاہر کرنے جیسی بھول کے لیے ایک منتخب رکن کو ہمیشہ کے لیے نااہل قرار دے دیا جائے۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 26 اپریل کو خواجہ آصف کو امارتی کمپنی کی جانب سے لی گئی تنخواہ نہ ظاہر کرنے پر آرٹیکل 62 (1) ایف کے تحت نااہل قرار دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: خواجہ آصف کی نااہلی کا اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار

اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دی گئی درخواست میں خواجہ آصف نے موقف اختیار کیا تھا کہ ان پر بدعنوانی، دھوکہ دہی، غبن، دولت کا ناجائز استعمال، منی لانڈرنگ، عوامی املاک یا وسائل کو نقصان پہنچانے یا ذاتی مفاد کے لیے عوام کے دیئے گئے اختیار کا غلط استعمال کرنے کا کوئی الزام نہیں۔

سپریم کورٹ میں اس درخواست کی سماعت جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی تھی۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ تمام طرح کے اثاثے ظاہر نہیں کرنے کو ایک ہی تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا، ہماری نظر میں اس سلسلے میں کوئی پیمانہ مقرر نہیں کیا جاسکتا جس کے تحت کاغذاتِ نامزدگی میں ظاہر کیے گئے اثاثوں میں ہونے والی کوتاہی کو جواز بنا کر کسی کو بے ایمان قرار دے کر اسے زندگی بھر کے لیے نااہلی کی سزا دی جائے۔

خواجہ آصف کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے فیصلے میں کہا گیا کہ ان کی نااہلی کے لیے ابوظہبی کے نیشنل بینک میں موجود اکاؤنٹ میں 5 ہزار درہم کو جواز بنایا گیا۔

مزید پڑھیں: خواجہ آصف نے نااہلی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

خواجہ آصف نے عام انتخابات کے لیے جمع کروائے گئے کاغذاتِ نامزدگی میں کسی غلطی کی بنا پر اثاثوں کی فہرست میں مذکورہ اکاؤنٹ کا ذکر نہیں کیا البتہ 2015 میں آر او پی اے کے سیکشن 42 اے کے تحت جمع کروائے گئے اثاثوں کی تفصیلات میں انہوں نے اس کا ذکر کیا تھا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ مذکورہ اکاؤنٹ کی مکمل بینک اسٹیٹمنٹ ریکارڈ پر موجود ہے جس کے مطابق درخواست گزار نے 17 اپریل 2010 کو یہ اکاؤنٹ 5 ہزار درہم کی رقم سے کھولا اور 5 سال بعد 7 جولائی 2015 کو بند کردیا۔

چنانچہ اس معاملے میں نہ تو مفادات کا ٹکراؤ موجود ہے نہ ہی اثاثوں کے حوالے سے غلط بیانی کرنا پایا گیا۔


یہ خبر 20 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں