افغانستان میں عام انتخابات کے دن بم دھماکے سمیت مختلف پرتشدد واقعات میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 28 افراد ہلاک اور 150 سے زائد زخمی ہو گئے۔

ہفتے کو عام انتخابات کا دن پرتشدد واقعات سے شروع ہوا، جہاں کابل میں پولنگ اسٹیشن کے اندر خود کش بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 15 افراد ہلاک اور 20 زخمی ہو گئے۔

تصاویر دیکھیے: افغانستان، دھماکے اور عام انتخابات

ابھی تک کسی نے بھی ان حملوں کی ذمے داری قبول نہیں کی لیکن طالبان نے عام انتخابات کو 'جعلی' قرار دیتے ہوئے ان کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا اور انتخابی سرگرمیوں پر 300 سے زائد حملے کیے۔

افغانستان کے شمالی شہر قندوز سے بھی پرتشدد واقعات کی اطلاعات موصول ہوئیں جہاں صوبائی دارالحکومت میں داغے گئے 20 سے زائد راکٹوں کے حملے میں کم از کم 3 افراد ہلاک اور 40 زخمی ہو گئے۔

طلوع نیوز کے مطابق افغانستان کے وزیر داخلہ واعظ برماک نے بتایا کہ انتخابات کے دن 192 پُرتشدد واقعات رونما ہوئے جس میں 17 شہری، 10 پولیس اہلکار اور ایک فوجی ہلاک ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ کابل میں خود کش بم دھماکے کے ساتھ ساتھ مختلف مقامات سے دستی بم حملوں اور دیگر پرتشدد واقعات کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'داخلی حملے' میں قندھار کے گورنر، پولیس اور انٹیلی جنس چیفس ہلاک

آزاد الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر محمد رسول عمر نے بتایا کہ قندوز سے چند کلومیٹر دور واقع پولنگ اسٹیشن پر طالبان نے حملہ کیا جس سے آزاد الیکشن کمیشن کا ایک ملازم ہلاک اور 7 لاپتہ ہو گئے۔

انہوں نے بتایا کہ پولنگ اسٹیشن پر حملے کے دوران طالبان نے بیلٹ باکس کو بھی نقصان پہنچایا اور تمام بیلٹ پیپرز ضائع کردیے۔

افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار میں 8 دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں کم از کم 2 افراد ہلاک اور 5 زخمی ہو گئے۔

مزید پڑھیں: خاتون سے تعلق کے الزام پر پریشان مذہبی رہنما نے خود کو 'نامرد' کرلیا

ابتدائی اعدادوشمار کے مطابق افغانستان کے 27 صوبوں میں تقریباً 88 لاکھ رجسٹر ووٹرز میں سے 15 لاکھ افراد نے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔

ملک بھر میں 21 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنز کی حفاظت کے لیے 70 ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا لیکن حکومت کے یہ انتظامات بھی انتخابات کو محفوظ بنانے کے لیے ناکافی ثابت ہوئے۔

ہفتے کو انتخابات کے دن شدید بدنظمی دیکھنے میں آئی اور کئی مقامات پر طے شدہ وقت کے مطابق صبح 7بجے ووٹنگ کا عمل شروع نہ ہو سکا اور عملے کے نہ آنے کے سبب پولنگ اسٹیشن کے دروازے تک نہیں کھولے گئے۔

انتخابات کے دن نئے بائیومیٹرک سسٹم، رجسٹریشن لسٹ اور اسٹاف کی کمی جیسے مسائل واضح طور پر نظر آئے جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اس کی ایک واضح مثال یونیورسٹی کے طالب علم محمد عالم ہیں جنہیں مزار شریف میں ووٹ ڈالنے کے لیے پہلے تو 3 گھنٹے لائن میں کھڑا رہنا پڑا اور جب ان کی باری آئی تو بتایا گیا کہ ان کا نام تو رجسٹریشن لسٹ میں موجود ہی نہیں۔

کابل کے شمال میں صبح 7 بجے سے ووٹنگ کے انتظار میں کھڑے ہونے والے افراد نے 5 گھنٹے تک موقع نہ ملنے پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے سڑک بلاک کردی، اسی طرح ملک کے دیگر حصوں میں بھی انتخابی بدنظمی پر عوامی ردعمل دیکھنے کو ملا۔

پولنگ میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ اسٹاف کے تاخیر سے آنے کے ساتھ ساتھ ان کی ناتجربہ کاری تھی جنہیں محض 2 ہفتہ قبل ہی نئے بائیومیٹرک سسٹم سے متعارف کرایا گیا جس کی وجہ سے وہ خود پولنگ کے دن پریشان نظر آئے جبکہ ووٹرز کی رجسٹریشن لسٹوں میں بھی کئی خامیاں سامنے آئیں۔

ملک بھر میں ہونے والی ان بد انتظامیوں اور انتخابی عمل میں تاخیر کے سبب آزاد الیکشن کمیشن کے سربراہ عبدالبدیع سایت نے سرکاری ٹیلی ویژن پر آ کر اعلان کیا کہ جو لوگ ووٹ دینا چاہتے ہیں انہیں موقع ضرور ملے گا اور ووٹنگ ختم ہونے کا وقت 4 بجے سے بڑھا کر 8 بجے تک کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب کا قونصل خانے کے اندر صحافی کے قتل کا اعتراف

الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ بدنظمی سے متاثر ہونے والے 361 پولنگ اسٹیشنز میں اتوار کو دوبارہ پولنگ کی جائے گی۔

عبدالبدیع نے انکشاف کیا کہ جن اسٹاف ممبران اور اساتذہ کو بائیو میٹرک سسٹم کی تربیت دی گئی تھی ان میں سے اکثر پولنگ اسٹیشن نہیں آئے تاہم یہ واضح نہیں ان کے نہ آنے کا تعلق طالبان کی دھمکی سے ہے یا اس کی وجہ ان کی اپنی مجرمانہ غفلت ہے۔

یہ افغانستان میں ہونے والے تیسرے عام انتخابات ہیں اور طالبان کی دھمکیوں اور ملک میں امن عامہ کی خراب صورتحال کی وجہ سے موجودہ انتخابات پہلے ہی ساڑھے تین سال تاخیر سے منعقد ہو رہے ہیں۔

طالبان کی جانب سے دھمکیوں اور انتخابی مہمات پر کیے گئے جان لیوا حملوں کی وجہ سے ووٹرز ٹرن آؤٹ بہت کم رہا۔

یاد رہے کہ انتخابات میں شریک تقریباً ڈھائی ہزار امیدواروں میں سے کم از کم 10 الیکشن سے قبل کیے گئے حملوں میں ہلاک ہو گئے تھے۔

ضرور پڑھیں: ترکی کی مسجد کا 'قبلہ' 37 برس بعد درست کردیا گیا

اس سلسلے میں سب سے خطرناک واقعہ جمعرات کو پیش آیا تھا جب صوبے قندھار میں داخلی حملے کے نتیجے میں صوبے کے گورنر زالمے ویسا، صوبائی پولیس چیف جنرل عبدالرازق اور صوبائی انٹیلی جنس چیف عبدالموہمن ہلاک ہوگئے جبکہ نیٹو فورسز کے کمانڈر محفوظ رہے۔

الیکشن کمیشی کے نائب ترجمان عزیز ابراہمی نے کہا ہے کہ انتخابات کے نتائج نومبر سے قبل جاری نہیں کیے جائیں گے جبکہ حتمی نتائج دسمبر سے قبل نہیں آ سکیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں