ناروے نے صحافی جمال خاشقجی قتل کے بعد ریاض میں حالیہ سیاسی پیش رفت کے تناظر میں سعودی عرب کو دفاعی سازوسامان کی فراہمی روک دی۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ میں شائع رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے ناروے کے وزیر خارجہ این ارکسن نے بتایا کہ ’موجودہ صورتحال کے پیش نظر ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سعودی عرب کو عسکری مقاصد کے لیے دفاعی سامان کا برآمدی لائسنس جاری نہیں کریں گے‘۔

واضح رہےکہ ناروے کی جانب سے یمن اور خلیجی ممالک میں حالیہ سیاسی پیش رفت کے تناظر منسوخی کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: محمد بن سلمان کی بادشاہت خطرے میں پڑگئی؟

ناورے کی جانب سے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا تذکرہ نہیں کیا لیکن بیان میں کہا کہ’سعودی عرب اور یمن میں غیر واضع صورتحال کی وجہ سے مذکورہ فیصلہ لیا گیا‘۔

خیال رہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب نے ڈپٹی انٹیلی جنس چیف احمد العسیری اور شاہی عدالت کے میڈیا ایڈوائزر سعود القحطانی کو برطرف کردیا، جو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے بہت قریبی ساتھی تھے۔

ناورے کی جانب سے اسلحہ لائسنس منسوخ کرنے سے قبل اوسلو میں سعودی سفیر کو طلب کرکے جمال خاشقجی کے قتل پر احتجاج بھی کیا گیا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان اچانک سعودی عرب کیوں گئے؟

دوسری جانب جرمنی نے گزشتہ ماہ واضح کیا تھا کہ وہ جمال خاشقجی کے قتل کے پس پردہ اسباب واضح نہ ہونے تک سعودی عرب کو اسلحہ فراہم نہیں کرے گا۔

جمال خاشقجی کا معاملہ

خیال رہے کہ سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔

ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قنصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی شاہی خاندان کے اندرونی جھگڑوں کی داستان

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

سعودی حکام نے ترک ذرائع کے دعوے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمال خاشقجی لاپتہ ہونے سے قبل قونصل خانے کی عمارت سے باہر جاچکے تھے۔

تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد ایک ہفتے سے غائب ہیں۔

اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا کہ سعودی صحافی، شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا سعودی ولی عہد اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ہیں؟

انہوں نے کہا تھا کہ خاشقجی کی صحافت سعودی حکومت کے لیے بڑا خطرہ نہیں تھی لیکن ان کے خفیہ ایجنسی کے ساتھ تعلقات تھے جس کی وجہ سے انہیں بعض اہم معاملات سے متعلق علم تھا۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہ راست ملاقات بھی کی تھی۔

اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دھمکی آمیز بیان میں کہا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔

17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: محمد بن سلمان کی بادشاہت خطرے میں پڑگئی؟

اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں