سینیٹ میں اپوزیشن کی جانب سےمتعدد بل پیش کیے گئے جہاں اس دوران حکومت کو ایک مرتبہ پھر حزب اختلاف کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہداللہ خان نے آسیہ بی بی کے فیصلے کے خلاف احتجاج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت جب اپوزیشن میں تھی اس کی حمایت کرتی اب یہ ان کے لیے 'خدا کا فیصلہ' ہے۔

سینیٹر مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ یہاں بڑے پرتشدد مظاہرے ہوئے، کوئی اس کے حق میں بات نہیں کر سکتا، ماضی میں جب احتجاج ہوا تو موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر انسانی حقوق نے جاکر مظاہرے میں شرکت کی تھی، سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے یہ سب کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت نے ان مظاہرین کے ساتھ معاہدہ کیا جنہوں نے ریاستی اداروں کے خلاف باتیں کی اس کو کہتے ہیں خدا کا انصاف، آپ نے ترقی کی طرف جانے والے ملک کو روکا، آج حکومت اس بات کا بھی جواب نہیں دے پا رہی کہ آسیہ بی بی کہاں ہے'۔

سینیٹر نے کہا کہ 'کل جولوگ ختم نبوت پر احتجاج کرتے تھے وہ آپ کے دوست تھے اور آج دشمن ہیں یہ خدا کا انصاف ہے'۔

مشاہد اللہ خان نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ایوان میں دیے گئے بیان پر سخت ردعمل دیا جس پر حکومتی ارکان نے احتجاج کیا جبکہ فواد چوہدری اس وقت ایوان میں موجود نہیں تھے تاہم سینیٹر نعمان وزیر اور مشاہد اللہ خان کے درمیاں تلخ کلامی بھی ہوئی۔

وزیراعظم عمران خان کی ملک سے باہر تقاریر پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کسی آمر کا نام بھی بتا دیں جس نے باہر جاکر کہا ہو کہ میرے ملک میں سارے کرپٹ لوگ ہیں ،آپ نے دھرنا دیا اس وقت نقصانات کا خیال نہیں آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کہا گیا تھا وزیراعظم ہاؤس یونیورسٹی بن جائے گی، 2 گاڑیاں اور ملازم رکھوں گا، بتائیں کہ ان پر عمل درآمد ہوا، این آئی سی ایل کے سارے لوگ پی ٹی آئی میں ہیں کہ نہیں، پاناما کے 456 لوگوں کے حوالے سے کیا ہوا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نے کہا کہ اسرائیل کے جہاز پر کوئی بات نہیں کر رہا، یہ خود علیمہ خان کے خلاف کچھ نہیں کر رہے جس پر حکومتی ارکان نے کہا کہ مشاہد اللہ خان مشاعرہ کر رہے ہیں۔

اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت کی جانب سے ریڈ لائن عبور کی گئی، کیا ہم اپنے معاشرے میں ایسی سیاسی جماعت کو برداشت کرتے رہیں گے جو ملک میں انارکی پھیلانے اور بغاوت کی بات کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین کہتا ہے کہ جو جماعت ملک کی خود مختاری کے خلاف بات کرے گی، جلاؤ گھیراو کرے گی ، اس کی رکنیت منسوخ کی جائے گی اور اگر ہم انھیں برداشت کریں گے تو اس سے متعلق آئین کا آرٹیکل بھی ختم کر دیں۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے آسیہ بی بی کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیا کسی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو پڑھا ہے، سپریم کورٹ نے کہا کہ ایک بے گناہ شخص کو موت کی سزا نہیں دے سکتے۔

انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ قدم بڑھاؤ عمران خان لیکن اب حکومت سے پوچھتے ہیں کہ جو قومی اتفاق رائے ہوا تھا اس سے حکومت نے کیوں راہ فرار اختیار کی جبکہ وزیر مملکت داخلہ نے اس تمام کا ذمہ دار اپوزیشن کو ٹھہرایا جو اس معاملے پر آپ کے ساتھ کھڑی تھی۔

پیپلزپارٹی کے سینیٹر نے کہا کہ حکومتی نااہلی کی وجہ سے عوام میں مایوسی پھیلی لیکن حکومت سے کہتے ہیں ان اہم قومی معاملات پر اتفاق رائے کو ختم نہ کریں کیونکہ ملک کو بڑھتی انتہا پسندی کا سامنا کرنا ہے۔

ای سی ایل سے متعلق اپوزیشن کا بل مسترد

سینٹ میں اپوزیشن کی جانب سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے متعلق پیش کیے گئے ترمیمی بل کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مسترد کر دیا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیرِ صدارت ایوانِ بالا کا اجلاس ہوا جس میں سرکاری اداروں میں ڈے کیئر سینٹر قائم کرنے، غیرملکی معاہدوں کی پارلیمنٹ سے منظوری، انسانی اعضاء اور ٹشوز کی پیوندکاری ایکٹ میں ترمیم، ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ترمیم اور بینکنگ سروس کارپوریشن ترمیمی بل پیش کیے گئے۔

اجلاس کے آغاز میں سینیٹر مشتاق احمد نے کراچی کے معروف صحافی نصر اللہ خان کو مبینہ طور پر اٹھائے جانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’کراچی پریس کلب پر حملے کے بعد ایک صحافی نصر اللہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے‘۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر میاں رضا ربانی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر بین الاصوبائی رابطہ نے ایوان کا استحقاق مجروح کیا ہے۔

اپنی بات کی وضاحت دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل نے 2016 سے اپنی رپورٹ ایوان میں پیش نہیں کی، اور رپورٹ پیش نہ ہونے سے ایوان کا استحقاق مجروع ہوتا ہے۔

پی پی پی کے سینیٹر کے خطاب کے بعد چیئرمین سینیٹ نے معاملہ استحقاق کمیٹی کے سپرد کر دیا۔

سرکاری اداروں میں ڈے کیئر سینٹر قائم کرنے سے متعلق بل

اجلاس کے دوران سینیٹر قرت العین مری نے بل پیش کیا جس میں سرکاری اداروں میں ڈے کیئر سینٹر قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

ایوان نے قرت العین مری کی جانب سے جمع کروائے جانے والے اس بل کو متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔

غیرملکی معاہدوں کی پارلیمنٹ سے منظوری بل

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی نے غیرملکی معاہدوں کی پارلیمنٹ سے منظور سے متعلق بل بنام ’توثیق معاہدات غیر ملکی از پارلیمنٹ بل 2018‘ ایوان میں پیش کیا۔

رضا ربانی کی جانب سے پیش کیے جانے والے اس بل میں کہا گیا کہ بعض ممالک میں روایت ہے کہ تمام معاہدوں کی توثیق پارلیمنٹ دیتی ہے۔

انہوں نے بل میں تجویز پیش کی کہ بیرونِ ملک معاہدوں کو مذاکرات ہونے اور پھر ان پر دستخط ہونے سے پہلے پارلیمان میں پیش کیا جائے۔

بل میں تجویز دی گئی کہ معاہدے 15 دن کے اندر پارلیمنٹ میں پیش ہونے کے بعد ان پر بحث کی جائے گی جس کے بعد پارلیمنٹ ان سے متلعق سفارشات متعلقہ وزارت کو بھیجے گی اور پھر وزارت مقررہ وقت میں سفارشات کی منظوری سے متعلق پارلیمان کو آگاہ کرے گی۔

بل کے جواب میں وفاقی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’اصولی طور پر مجھے کوئی اعتراض نہیں، پہلے کہا گیا تھا کہ دنیا میں یہ روایت ہے لیکن دنیا میں ایسی کوئی مشق نہیں ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بہت سے ممالک معاہدوں کی توثیق قانون سازوں کے پاس نہیں لاتے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس معاملے میں قانون سازوں کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔

شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ بین الاقوامی معاہدے اس نوعیت کے بھی ہوتے ہیں جن پر کئی سالوں تک مذاکرات ہی ہوتے رہتے ہیں، تاہم پارلیمان میں معاہدوں پر بحث پر غیر یقین کی صورتحال بھی پیدا ہوسکتی ہے، لہٰذا نظرثانی کا کوئی ایسا راستہ نکالا جائے جو کام میں رکاوٹ کا سبب بھی نہ بنے۔

سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما راجا ظفر الحق نے میاں رضا ربانی کی جانب پیش کردہ بل کی حمایت کی۔

راجا ظفر الحق کا کہنا تھا کہ غیر ملکی معاہدے سے متعلق معاملات صرف چیف ایگزیکٹو کے پاس نہیں رہنے چاہیئں، اس عمل میں پارلیمان کو بھی شامل کیا جانا چاہیے اور پالیمان کو اس سے دور نہ رکھا جائے۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے میاں رضا ربانی کی جانب سے پیش کردہ بل کو سینیٹ کی متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔

ای سی ایل میں ترمیم کا بل

سینیٹر میاں رضا ربانی نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ترمیم سے متعلق بل بھی ایوان میں پیش کیا، جسے چیئرمین سینیٹ نے متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔

بل کے مطابق سینیٹر رضا ربانی کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ حکومت کسی فرد کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی وجوہات بیان کرے۔

میاں رضا ربانی کے بل میں تجویز دی گئی کہ جس بھی شخص کا نام ای سی ایل میں شامل کیا جارہا ہو اسے اس کے بارے میں 24 گھنٹے کے اندر لازمی آگاہ کیا جائے۔

بل کے مطابق ای سی ایل میں نام شامل کرنے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل حکومت کو بھیجی جائے گی، جس پر 15 روز کے اندر فیصلہ دیا جائے، جبکہ مطلوبہ وقت میں فیصلہ نہ دینے کی صورت میں متعلقہ شخص کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا فیصلہ متروک ہو جائے گا۔

وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے میاں رضا ربانی کی جانب سے پیش کیا جانے والا بل مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ ای سی ایل میں نام شامل کرنے کا موجودہ طریقہ کار درست ہے۔

انہوں نے کہا کہ جلد بازی میں غلط فیصلے ہو جاتے ہیں، 15 روز میں ای سی ایل میں نام شامل کرنے کے حوالے سے فیصلہ کرنا مناسب نہیں۔

بینکنگ سروسز کارپوریشن ترمیمی بل

سینیٹ اجلاس کے دوران میاں رضا ربانی نے ہی بینکنگ سروسز کارپوریشن ترمیمی بل 2018 پیش کیا جسے چیئرمین سینیٹ نے متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔

انسانی اعضاء کی پیوندکاری ایکٹ میں ترمیم کا بل

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سینیٹر میاں عتیق کی جانب سے انسانی اعضاء اور ٹشوز کی پیوندکاری ایکٹ میں ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کیا گیا۔

اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے سرکاری ٹی وی کی غلطی کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ‘مزہ آگیا یہ دیکھ کر جب سرکاری ٹی وی پی بیگنگ لکھا دیکھا‘۔

سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ یہ تاریخی حقیقت تھی یا پھر غلطی یہ فیصلہ تاریخ ہی کرے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں