وزیر اعظم عمران خان نے اپنے کئی بیانیے اعلیٰ عہدے کی حقیقتوں کے ساتھ ایڈجسٹ کرلیے ہیں لیکن ایک ایسا اہم شعبہ ایسا ہے جہاں وہ حالیہ تاریخ کے غلط فہم کو ترک کرنے پر ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔

پیر کو شمالی اور جنوبی وزیر ستان کے قبائلی اضلاع کے دورے کے موقع پر عمران خان نے قبائلی بزرگوں کے ایک گروپ کو کہا کہ پاکستان دوسروں کی مسلط کردہ جنگ لڑ رہا ہے، اور یہ کہ پی ٹی آئی حکومت پاکستانی سرزمین پر اب ایسی کسی جنگ کو لڑنے کی اجازت نہیں دے گی۔

وزیر اعظم کے الفاظ ان لوگوں کی قناعت اور جہاں یہ بات کہی گئی اس جگہ پر نہیں جچتے۔

وزیرستان ایجنسیاں ان چند علاقوں میں سے ہیں جہاں طالبان شورش نے اس قدر شدید نقصان پہنچایا، کہ تاحال جہاں حالات معمول پر لانے کی کوششیں جاری ہیں۔

وزیر اعظم ایک بدترین اور پرعزم دشمن کے خلاف عوام کے دفاع کی خاطر پاکستانی ریاست کی جانب سے لڑی جانے والی بدترین جنگ کے محاذوں پر غیر معمولی قربانیاں اور اپنی جان دینے والوں کی بے قدری کرتے دکھائی دیے۔

یہ موقع یقیناً انتہائی حساسیت کا متقاضی تھا جس میں کمی دکھائی دی۔

سب سے پریشان کن وزیر اعظم خان کی رواں صدی میں اس خطے میں لڑی گئی جنگوں کی طرف اپنے غلط زوایہ نظر کا جائزہ لینے میں ہچکچاہٹ ہے۔

افغانستان کی جنگ کا، کم از کم ابتدائی طور پر تو عراقی جنگ سے تقابل نہیں کیا جاسکتا تھا۔

افغانستان میں جنگ کی سربراہی امریکا نے ضروری کی ہوگی لیکن اس میں اقوام متحدہ کی منظوری بھی شامل تھی اور اس عمل میں درجنوں ممالک نے حصہ لیا تھا۔

امریکا افغانستان میں کئی ساری غلطیاں کرچکا ہے اور بش انتظامیہ کا عراق پر حملے کرنے کا فیصلہ ایک تاریخی سانحہ تھا، ان غلطیوں اور فیصلے کی وجہ سے ایک بنیادی حقیقت دھندلا گئی ہے وہ یہ کہ افغانستان میں جنگ اقوام متحدہ کی منظوری کے بعد شروع کی گئی اور اس کی حمایت کرنا پاکستان کی قانونی ذمہ داری ہے۔

ایک طرف وزیر اعظم خان کے افغان جنگ پر نکتہ نظر کی سمت درست نہیں تو دوسری طرف پاکستان میں دہشتگردی، جارحیت اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ پر خیالات بالکل بھی محتاط نہیں ہیں۔

پاکستانی طالبان کی شورش سے لے کر پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ حملوں تک، ملک کے اندر جارحانہ تشدد کی جڑوں کو خود ریاست کی تنگ نظر اور خودخدمتی پالیسیوں میں پیوستہ دیکھا جاسکتا ہے۔

بلاشبہ، ماضی کے اور موجودہ سول اور ملٹری سربراہان نے نہ صرف یہ اقرار کیا ہے کہ انتہاپسندی کے خلاف جنگ نہ صرف پاکستان کی اپنی جنگ ہے بلکہ قومی قیادت میں شامل کئی افراد نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اسٹریٹجک اور پالیسی غلطیوں کی وجہ سے اس ملک میں جارحیت، دہشتگردی اور پرتشدد انتہاپسندی کو فروغ ملا۔

پاکستان کے اندر لڑی جا رہی جنگ کو جنگِ ضرورت اور اس ملک کی بقا کے لیے ضروری تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ وزیر اعظم کے لیے غیر مناسب ہے۔

خاص طور پر جب بات ملک کے اندر پرتشدد انتہاپسندی اور دہشتگرد نیٹ ورکس کی باقیات کے خلاف جنگ کی آئے تو سیکیورٹی ڈھانچے کہ سویلین سائیڈ کے محاذ پر رہنما کردار ادا کرنا ہوگا۔

وزیر اعظم کی انتہاپسندی کے خلاف جنگ کے حوالے سے سوچ اور اس طرف اپروچ کو بہتر بنانا ہوگا۔


یہ اداریہ 28 نومبر 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں