خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ میں نجی چینل کے رپورٹر کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف پشاور میں صحافی برادری کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔

نور الحسن نامی صحافی کو گزشتہ روز شیدو گاؤں میں ان کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تھا۔

اس موقع پر نوشہرہ، جہانگیرہ، خیرآباد، پابی اور صوابی سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے نورالحسن کے قتل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں : سپریم کورٹ نے صحافی ذیشان بٹ کے قتل کا نوٹس لے لیا

احتجاج میں شریک صحافیوں نے جی ٹی روڈ بند کرکے مظاہرہ کیا اور ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کیے جانے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

صحافیوں کی جانب سے تنبیہ بھی کی گئی کہ اگر حکومت نے صحافی کے قاتلوں کی گرفتاری میں مزید تاخیر کی تو صوبے بھر میں مظاہرے کیے جائیں گے۔

مظاہرین نے نورالحسن کے قتل کی ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کو شامل کرنے اور حکومت کی جانب سے مقتول صحافی کے اہلِ خانہ کے لیے شہدا پیکج کا اعلان کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

اس کے ساتھ ہی ضلع باجوڑ میں بھی صحافی برادری نے نورالحسن کے قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔

باجوڑ پریس کلب کے باہر باجوڑ پریس کونسل اور باجوڑ یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے مشترکہ طور پر کیے گیے مظاہرے میں صحافیوں نے نورالحسن کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے صحافی برادری پر حملہ قرار دیا۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ پشاور جیسے شہر میں نورالحسن کا قتل پوری صحافی برادری کے لیے باعث تشویش ہے۔

یہ بھی پڑھیں : ’5 برسوں میں 26 صحافی قتل، کسی ایک قاتل کو بھی سزا نہیں ہوئی‘

صحافی برادری نے نورالحسن کے قاتلوں کی گرفتاری میں تاخیر کرنے پر پشاور پولیس کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

خیال رہے کہ 3 دسمبر کو نجی نیوز چینل سے وابستہ سینئر صحافی نورالحسن اپنے کیمرہ مین صابر کے ہمراہ حیات آباد جارہے تھے کہ رنگ روڈ پر نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے انہیں نشانہ بنایا تھا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 5 دسمبر 2018 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں