’ملک میں 67 فیصد بچوں کی پیدائش کا اندراج نہیں ہوتا‘

11 دسمبر 2018
صرف 33 فیصد بچوں کی پیدائش رجسٹرڈ ہوتی ہے—فائل فوٹو
صرف 33 فیصد بچوں کی پیدائش رجسٹرڈ ہوتی ہے—فائل فوٹو

اسلام آباد: پارلیمانی پینل کے سامنے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک میں 67فیصد تک بچوں کی پیدائش کا اندراج نہیں ہوتا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بچوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے واقعات کے معاملے پر سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس سینیٹر نزہت صادق کی سربراہی میں ہوا، اجلاس میں سینیٹر ستارہ ایاز، محمد علی خان سیف اور مشتاق احمد سمیت یونیسیف اور وزارت انسانی حقوق کے نمائندے شریک ہوئے۔

اجلاس میں وزارت انسانی حقوق کے ڈائریکٹر جنرل محمد ارشد نے بتایا کہ صرف 33 فیصد بچوں کی پیدائش پاکستان میں رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔

مزید پڑھیں: وزیر برائے انسانی حقوق کی عدم شرکت پر سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے ارکان برہم

انہوں نے کہا کہ اعداد و شمار کی غیر موجودگی میں پالیسیز کو متوقع اعداد و شمار کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے، تاہم بچوں کے تحفظ کے لیے کئی قوانین موجود ہیں لیکن مسئلہ ان کے نفاذ کا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک سے 5 سال کی عمر کے درمیان بچوں کی رجسٹریشن نہ ہونا بچوں کے حقوق کے کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔

محمد ارشد کا کہنا تھا کہ بچوں کے تحفظ کے قوانین پر بہتر عملدرآمد کے لیے وزارت نے صوبائی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں۔

اس موقع پر کمیٹی کے ارکان نے وزارت اور صوبائی انتظامیہ کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ تنظیموں کے کردار کا نشان تک نہیں۔

دوران اجلاس کمیٹی نے بلوچستان چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2016 پر دی گئی بریفنگ پر کہا کہ چائلڈ پروٹیکشن کمیشن میں حکومتی عہدیداروں کا کوئی کردار نہیں ہے۔

سینیٹر علی خان سیف نے کہا کہ بین الاقوامی وعدوں کے مطابق حکومت کا واحد کردار کسی بھی کمیشن کو تحفظ اور مالی امداد دینا ہے جبکہ لیٹر کو بچوں کے تحفظ پر حکومتی کارکردگی پر نظر رکھنا ہے۔

اجلاس کے دوران سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ تمام صوبوں میں بچوں کے تحفظ سے متعلق قوانین یکساں ہونے چاہئیں، تاہم بغیر اعداد و شمار کے اس کی منصوبہ بندی نہیں کی جاسکتی۔

یہ بھی پڑھیں: بچوں سے زیادتی کے واقعات پر صوبائی حکام طلب

اس موقع پر کمیٹی نے پاکستان سے ایران بچوں کی اسمگلنگ کی رپورٹ پر بھی تحفظات کا اظہار کیا اور ان سرگرمیوں میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔

سینیٹر سیف نے کہا کہ اگر بچے کو تعلیم اور طبی سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں تو یہ بچوں کے ساتھ زیادتی کی درجہ بندی میں ہی شمار ہوگا۔

قبل ازیں کمیٹی نے وزیر اور سیکریٹری انسانی حقوق کی غیرموجودگی پر ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت پارلیمانی کمیٹیوں کو نظر انداز کر رہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں