اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے کبھی العزیزیہ اور ہل میٹل اسٹیل مل کے قیام کے حوالے سے تحقیقات نہیں کیں اور نہ ہی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے ان کے موکل سے تحقیقات میں پیش ہونے پر ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں کوئی سوال پوچھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران حتمی دلائل دیتے ہوئے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ جن دستاویز کی بنیاد پر نیب نے سابق وزیراعظم کو ملزم قرار دیا وہ کسی اور نے نہیں بلکہ ان کے بیٹے حسین نواز نے ہی عدالت میں پیش کی تھیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حسین نواز نے پاناما پیپرز کی تحقیقات کے دوران جو دستاویز سپریم کورٹ میں پیش کی تھیں، اس کے علاوہ نیب نے کبھی عدالت کے سامنے کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا نواز شریف کے خلاف 2 ریفرنسز کا فیصلہ 24 دسمبر تک سنانے کا حکم

خواجہ حارث نے مزید کہا کہ کیا کسی کو عدالت میں شریک ملزم کی جانب سے پیش کردہ دستاویز پر ریفرنس میں ملوث کرنا مناسب ہے؟ جو کچھ ریکارڈ پر تحقیقاتی افسر نے پیش کیا، اس کا عدالت پہلے ہی جائزہ لے چکی ہے۔

خواجہ حارث کا مزید کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف تحقیقاتی افسران کسی قسم کا ایسا مواد نہیں پیش کرسکے جس سے انہیں ملزم ٹہرایا جاسکے اور ان کے پیش کردہ تمام ثبوت اسی دستاویز سے اخذ کیے گئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ریفرنس میں شامل کی گئیں کچھ مزید معلومات اکاؤنٹس سے متعلق ہیں جو ان کے موکل نے بذات خود فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) اور سپریم کورٹ میں جمع کروائی۔

مزید پڑھیں: العزیریہ ریفرنس: نواز شریف نے 45 سوالات کے جوابات دے دیے

دلائل دیتے ہوئے خواجہ حارث کا مزید کہنا تھا کہ الدار آڈٹ رپورٹ کے مطابق ان کے موکل کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جانے والی رقم کا تذکرہ حسین نواز نے بھی سپریم کورٹ کے سامنے کیا تھا، انہوں نے اسے ناکافی شواہد قرار دیا اور کہا کہ استغاثہ نے کبھی بھی آڈٹ رپور ٹ یا اس کے مواد کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق نہیں کروائی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ کا مواد کبھی بھی کسی متعلقہ فورم کے سامنے پیش نہیں کیا گیا اس وجہ سے اسے ان کے موکل کے خلاف بطور ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا۔

جے آئی ٹی کی تحقیقات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ واجد ضیا کی جانب سے سعودی عرب کو باہمی قانونی معاونت کے لیے ارسال کردہ درخواست میں حسین نواز کی کمپنی کا نام ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کی جگہ ہل ماڈرن انڈسٹری لکھا گیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کو کمپنی کا درست نام تک معلوم نہیں تھا اور وہ غلط معلومات کی بنیاد پر سعودی عرب سے معاونت چاہ رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ’میرے بچے باہر جاکر کاروبار نہ کرتے تو کیا بھیک مانگتے؟‘

انہوں نے کہا کہ اس سے جے آئی ٹی کی قابلیت اور کارکردگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، العزیزیہ اسٹیل مل کے بارے میں وکیل دفاع کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ اس کے مالک ہیں اور حسین نواز اپنے والد کے زیر کفالت نہیں تھے کیوں کہ ان کے دادا میاں شریف پورے خاندان کی دیکھ بھال کرتے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ العزیزیہ یا ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کی منی ٹریل کی روداد مختلف نہیں کیوں کہ میاں شریف نے قطری شاہی خاندان کے ساتھ سرمایہ کاری کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں