دبئی: متحدہ عرب امارات کے بعد بحرین نے بھی شام میں اپنے سفارتی امور بحال کرنے کا اعلان کردیا۔

بحرینی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں شام سے تعلقات بحال رکھنے کی ضرورت پر زور دیا اور دمشق کی آزادی اور ایران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شام کے معاملات میں خطرناک علاقائی دخل اندازی کو روکنے کی ضرورت کو اجاگر کیا۔

بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ بحرینی سفیر شام میں اپنی ذمہ داریاں کب سنبھا لیں گے اور نہ ہی بحرین کی دمشق میں سفارتی موجودگی کے حوالے سے بتایا گیا۔

شام میں خانہ جنگی کے دوران بھی بحرین کے دارالحکومت ماناما سے دمشق کے لیے براہ راست پروازیں چلتی رہی ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز متحدہ عرب امارات نے بھی 7 سال بعد جنگ زدہ شام کے دارالحکومت میں اپنا سفارت خانہ کھول دیا تھا، جسے شامی حکومت کو ایک مرتبہ پھر عرب دنیا میں واپس لانے کی کوشش قرار دیا گیا۔

متحدہ عرب امارات کے ناظم الامور عبدالحکیم نعیمی نے دمشق کے وسطی علاقے میں سفارت خانے کا دورہ کیا اور 7 سال بعد ایک مرتبہ پھر سفارت خانے پر یو اے ای کا جھنڈا نصب کیا۔

مزید پڑھیں: ’ٹرمپ نے طیب اردوان سے رابطے کے بعد شام سے فوج کے انخلا کا اعلان کیا‘

متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق ’یہ اقدام اس بات کی تصدیق ہے کہ متحدہ عرب امارات، شام سے تعلقات بحال کرنا چاہتا ہے۔‘

خیال رہے کہ رواں برس اکتوبر میں شام کے صدر بشار الاسد نے کویتی اخبار کو بتایا تھا کہ سالوں کے اختلافات کے بعد دمشق اور عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔

انہوں نے اپنے انٹرویو میں عرب ممالک کا نام نہیں بتایا تھا، شام میں جنگ کے آغاز کے بعد انہوں نے کسی خلیجی اخبار کو پہلی مرتبہ انٹرویو دیا تھا۔

بشار الاسد نے کہا تھا کہ عرب اور مغربی وفود نے شام کا دورہ کیا ہے اور وہ یہاں دوبارہ سفارتی اور دیگر مشنز کھولنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

قبل ازیں ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران شام کے وزیر خارجہ اور ان کے بحرینی ہم منصب کے درمیان خوشگوار ماحول میں سائیڈ لائن ملاقات ہوئی تھی۔

مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک کی جانب سے ان اقدامات کے بعد یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا خلیجی ممالک، جن میں سے اکثر بشارالاسد کے مخالف ہیں، شام سے تعلقات کی بحالی پر غور کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی افواج کی شام سے واپسی، ترکی کا داعش کے خلاف جنگ کی سربراہی کا اعلان

2011 میں شام کو 22 رکنی عرب لیگ سے خارج کردیا گیا تھا، اس کے علاوہ عرب ممالک نے دمشق پر پابندیاں عائد کردی تھیں اور مخالفین کے خلاف ملٹری فورس کے استعمال کی شدید مذمت بھی کی تھی۔

چند روز قبل امریکا نے شام سے فوج واپس بلانے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد شام میں داعش کے خلاف جاری جنگ کی سربراہی اب ترکی کرے گا۔

تاہم خلیجی ممالک کی جانب سے امریکی فوج کے انخلا کے فیصلے کے بعد شام کے مستقبل میں ایران اور ترکی کے بڑھتے ہوئے کردار پر خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں