استنبول: امریکا کی جانب سے پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے شام سے مکمل طور پر فوجی دستوں کے انخلا کے اعلان کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ امریکا کے پیچھے ہٹنے کے بعد ترکی داعش کے خلاف جنگ کرے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے رواں ہفتے مشرقِ وسطیٰ میں تعینات 2 ہزار فوجیوں پر مشتمل دستہ واپس بلوانے کا اعلان کیا گیا تھا، جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کا یہ اقدام شام میں 7 سال سے جاری مسئلے کا سفارتی حل نکالنے میں مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔

امریکی صدر کے اعلان کے بعد ترکی اور امریکا میں جاری ایک مزاحمتی کشمکش کا خاتمہ ہوگا کیوں کہ ایک طویل عرصے سے ترک صدر امریکا، اپنے نیٹو اتحادی، پر شام میں کرد باغیوں کی حمایت کرنے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا شام سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ

واضح رہے کہ ترکی، کرد باغیوں کو دہشت گرد تصور کرتا ہے جس کی ایک شاخ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) بھی ہے، جو ترکی کے سرحدی علاقے میں کرد خود مختار ی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔

استنبول میں ایک تقریر کے دوران رجب طیب اردوان نے کہا کہ ترکی فی الحال شام میں داعش کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی پر توجہ مرکوز رکھے گا جبکہ شمال مشرقی شام میں کرد باغیوں پر حملے عارضی طور پر معطل کردیے جائیں گے۔

خیال رہے کہ فوجوں کے انخلا کے امریکی حکومت کے اعلان پر اتحادیوں نے مایوسی کا اظہار کیا، اس بارے میں فرانس اور جرمنی نے امریکا کو خبردار کیا کہ پالیسی میں تبدیلی داعش کے خلاف مہم کو متاثر کرسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: شام سے امریکی فوج کے انخلا سے داعش کو مدد ملے گی، کرد فورسز

ترک صدر کا کہنا تھا کہ ہم داعش کے خاتمے کے لیے اپنے منصوبے پر کام کرتے رہیں گے اور صدر ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے نتیجے میں شام میں اپنی موجودگی برقرار رکھیں گے۔

خیال رہے کہ ترک صدر نے گزشتہ ہفتے ہی شام کے شمالی علاقے میں دریائے عرفات کے ساتھ وائے پی جی کے کنٹرول کو ختم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن کے آغاز کا اعلان کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی وقت بھی شروع کیا جاسکتا ہے تاہم امریکی صدر کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بعد اب انہوں نے اس میں تاخیر کا اشارہ دے دیا۔

بعدازاں انہوں نے کہا کہ ’ہم نے شام کے شمالی حصے میں فوجی آپریشن اس وقت تک کے لیے ملتوی کردیا ہے جب تک ہم امریکی فوج کے انخلا کے نتائج نہ دیکھ لیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر کا شام سے فوج واپس بلانے کے فیصلے کا دفاع، روس کا بھی خیر مقدم

یہ بات مدِ نظر رہے کہ امریکی صدر کے اعلان کے بعد نہ صرف اتحادی ممالک بلکہ حکومتی اور اپوزشین اراکین کی جانب سے متضاد آرا سامنے آرہی ہیں۔

اس سلسلے میں روس کا کہنا تھا کہ ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ شام میں امریکا کا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں