پاکستان کی امریکا اور افغان طالبان کے مابین ملاقات کروانے کیلئے سرتوڑ کوششیں

اپ ڈیٹ 17 جنوری 2019
پاکستان نے امریکی عہدیداروں اور طالبان کے درمیان ابو ظہبی میں ملاقات کروانے کے لیے بھی اہم کردار ادا کیا تھا — فائل فوٹو
پاکستان نے امریکی عہدیداروں اور طالبان کے درمیان ابو ظہبی میں ملاقات کروانے کے لیے بھی اہم کردار ادا کیا تھا — فائل فوٹو

پشاور: پاکستان، افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے اور افغان طالبان کے رہنماؤں کے درمیان اسلام آباد میں ملاقات کروانے کی سنجیدہ کوششیں کررہا ہے تاکہ مذاکراتی عمل میں آنے والے تعطل کو دور کر کے افغان امن عمل کو تیز کیا جاسکے۔

دوسری جانب دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ انہیں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان کے نمائندوں کے مابین ملاقات کا علم نہیں لیکن ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان نے طالبان قیادت کو پیغام پہنچایا کہ وہ اس ہفتے اسلام آباد میں ایک ملاقات طے کروانے کا خواہش مند ہے تا کہ امن ایجنڈے کو مزید فروغ دیا جاسکے۔

دوسری جانب طالبان کی جانب سے امریکی مندوب زلمے خلیل زاد کے ساتھ ملاقات کے لیے تاحال موقف پیش نہیں کیا گیا لیکن ذرائع اس ملاقات کے بارے میں خاصے پُر امید ہیں، اسی سلسلے میں زلمے خلیل زاد کا دورہ اسلام آباد بھی ملتوی کردیا گیا تاکہ طالبان قیادت کو باہمی مشاورت کے لیے وقت فراہم کیا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان مفاہمتی عمل، امریکا پاکستان کی مدد کا متلاشی

حالیہ کوششوں کے پس منظر میں ایک اہم طالبان رہنما کی گرفتاری اور بعدازاں رہائی جبکہ کچھ طالبان کمانڈروں کی گرفتاری اور چھاپوں کے بارے میں میڈیا رپورٹس بھی سامنے آئیں تا کہ مبینہ طور پر دباؤ ڈال کر طالبان کو مذاکرات کی میز پر واپس لایا جاسکے اور افغان حکومت سے مذاکرات کے لیے راضی کیا جاسکے۔

حالیہ واقعات پاکستان کی افغان طالبان کے بارے میں پالیسی میں آنے والی تبدیلی کی جانب بھی اشارہ کررہے ہیں جس پر طویل عرصے سے طالبان کو تحفظ فراہم کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے، پاکستان کا مسلسمل اسرار ہے کہ وہ افغان شہریوں کی سربراہی میں افغان امن عمل کی مکمل حمایت کرتا ہے۔

خیال رہے کہ طالبان، افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کو مغرب کی قابض قوتوں کی کٹھ پتلی حکومت قرار دے کر اس کے ساتھ بات چیت کرنے سے صاف انکار کرچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا تیسرے فریق کو چھوڑ کربراہِ راست مذاکرات کرے، طالبان

دوسری جانب اسلام آباد نے امن عمل تیز کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں کابل کو بھی اعتماد میں لیا اور افغان صدر اشرف غنی کے خصوصی سفیر محمد داؤد زئی گزشتہ ہفتے دورہ پاکستان کے دوران خاصے مطمئن نظر آئے۔

قبل ازیں ریاض کی جانب سے سعودی عرب میں امن کانفرنس کے انعقاد کی کوششیں بھی رائیگاں چلی گئیں، جب طالبان نے اس میں شمولیت سے انکار کردیا اور گزشتہ برس اسی طرح کی افغانستان میں ہونے والی علما و مشائخ کانفرنس برائے امن و استحکام کو امریکا کی ہدایت پر منعقدہ اجلاس قرار دیا۔

مذکورہ کانفرنس کے اختتام پر 7 نکاتی اعلامیے میں خود کش حملوں کے ذریعے بے گناہ افراد کے قتل کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے منافی قرار دیا گیا تھا۔

بعد ازاں قطر میں امریکا کے خصوصی سفیر اور طالبان قیادت کے درمیان متوقع ملاقات بھی اس وقت منسوخ کردی گئی جب طالبان نے اپنے اہم رہنماؤں پر سے سفری پابندی اٹھانے کا مطالبہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان، امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں تعاون کیلئے تیار

خیال رہے کہ پاکستان سے اس سلسلے میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان سب سے پہلی ملاقات مری میں جولائی 2015 میں کروائی تھی لیکن معاملات میں ڈرامائی تبدیلی اس وقت دیکھنے میں آئی جب کابل نے اسلام آباد پر طالبان کے بانی رہنما ملا عمر کی موت کی خبر چھپانے کا الزام عائد کیا۔

اس کے بعد سے طالبان کی جانب سے افغان حکومت کے ساتھ براہِ راست مذاکرات سے مسلسل انکار کیا جاتا رہا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان کی جانب سے ازسرِ نو کی جانے والی کوششیں اور دباؤ بڑھانے کی چالیں کارگر ہوسکیں گی اور طالبان کو براہِ راست افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لاسکیں گی؟


یہ خبر 17 جنوری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں