کابل: طالبان نے افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے لیے امریکا کو ’اسلامی امارات‘ کے سیاسی دفتر میں براہِ راست مذاکرات کی پیش کش کردی ہے۔

واضح رہے کہ رواں سال کے آغاز میں طالبان کی جانب سے کابل حملوں کے بعد مذکورہ پیش کش کو طالبان پالیسی میں تبدیلی کے تناظر میں دکھا جارہاہے۔

یہ پڑھیں: طالبان حملے میں عبدالرشید دوستم کا ساتھی کمانڈر ہلاک

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان نے بیان جاری کیا کہ’امریکی حکام سیاسی بحران میں ڈوبے افغانستان کے پرامن حل کے لیے اسلامی امارت کے سیاسی دفتر میں براہِ راست مذاکرات کریں‘۔

طالبان کے بیان میں امریکہ کی قائم مقام معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ایلس ویلز کا بھی حوالہ دیا گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز کابل کے دورے پر ایلس ویلز نے افغانستان کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھلا ہے‘۔

گزشتہ دنوں کابل میں خطے میں امن کے حوالے سے پہلی کانفرنس ہوئی جس میں 25 ممالک کے نمائندوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جنگ میں تصادم کے حل کی حکمت عملی جیسے امور زیر بحث آئے تھے جس کو امریکا نے غیراہم قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبان کے خلاف امریکی فضائی حملوں میں ریکارڈ اضافہ

یادر ہے کہ واشنگٹن کئی عرصے سے طالبان سے مذاکرات چاہتا ہے لیکن ساتھ ہی مطالبہ ہے کہ ہر مذاکراتی عمل میں افغان حکومت شامل ہو گی جبکہ طالبان افغان حکومت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔

دوسری جانب طالبان کی پیش کردہ تجویز پر تاحال امریکا نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

افغان حکومت کے ترجمان ہارون چاخان سوری نے طالبان پر زور دیا تھا کہ وہ حکومت سے مذاکرات کے لیے ’عملی اقدام‘ اٹھائیں اور ’مذاکرات کے لیے تمام دروازے کھولے ہیں‘۔

انہوں نے پریس کانفرنس میں صحافیوں سے کہا کہ ’اگر وہ (طالبان) افغان ہیں تو افغان حکومت سے آکر ملیں اور بات کریں، امریکا طالبان سے بات نہیں کرے گا‘۔

مزید پڑھیں: کابل حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی، افغانستان کا دعویٰ

دوسری جانب سینئر طالبان کمانڈر نے کہا کہ ’طالبان قیادت افغان حکومت سمیت پاکستان سے مذاکرات میں زیادہ سنجیدہ نہیں‘۔

طالبان کمانڈر نے کہا کہ ’طالبان اور امریکا دو فریق ہیں اس لیے تیسرے فریق (پاکستان یا افغانستان ) کو شامل کیے بغیر براہِ راست کرو‘۔

واضح رہے کہ طالبان کی جانب سے امریکا کو مذاکرات کی اتنی کھولے دعوت پہلے کبھی سامنے نہیں آئی کیونکہ طالبان کو ہمیشہ سے دعویٰ رہا کہ جب تک غیر ملکی فوجیں افغانستان میں موجو دہیں ، مذاکرات کی گنجائش پیدا نہیں ہوتی ۔

افغان تجزیہ کار عبداللہ باری کا کہنا ہے کہ طالبان اور پاکستان پر حالیہ دنوں میں شدید دباؤ سے شدت پسندوں نے پیش کش کی۔

لیکن ساتھ ہی انہوں نے انتباہ کیا کہ امریکا اور طالبان دونوں ہی کئی برسوں سے کھیل کھیل رہے ہیں، ’طالبان نے ماضی میں ہمیشہ مذاکرات سے انکار کیا اس لیے کیا یہ دونوں مذاکرات کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں؟ اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے‘۔

اس حوالے سے مزید پڑھیں: افغانستان کو طالبان، حقانی نیٹ ورک کے 27 مشتبہ افراد دیے، ترجمان دفترخارجہ

یاد رہے کہ افغانستان میں 2001 سے امریکا کی مداخلت کے بعد 2017 میں سب سے زیادہ قتل و غارت ریکارڈ کی گئی اور یہ سلسلہ 2018 میں بھی جاری ہے۔

نیٹو کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق افغانستان میں امریکا کا 16 واں برس ہے تاہم واشنگٹن یا افغان حکومت ابتک 60 فیصد سے بھی کم رقبے پر اپنا پاؤں جما سکے ہیں جبکہ باقی ماندہ شہروں اور دیہاتوں میں طالبان کا کنٹرول ہے۔

‘کابل حملے میں اور امریکا کی طویل جنگ ’ نامی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ امریکا نے افغانستان میں جنگی محاذ پر اپنے ڈھائی ہزار فوجیوں سمیت 10 کھرب ڈالر کی خطیر رقم کی قربانی دے چکا ہے لیکن افغانستان کا دارالحکومت تاحال نشانے پر ہے جبکہ جنگ کے اختتام کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ ٹرمپ انتظامیہ نے جنگ تیز کرنے کے لیے 1 ہزار عسکری مشیروں کو افغانستان میں بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔


یہ خبر 28 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں