کرتارپور راہداری: بھارت نے اپنا وفد بھیجنے کے بجائے پاکستانی وفد کو مدعو کرلیا

اپ ڈیٹ 23 جنوری 2019
بھارت نے منصوبے کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے اپنی کابینہ کے 2 وزرا بھیجے تھے—فائل فوٹو
بھارت نے منصوبے کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے اپنی کابینہ کے 2 وزرا بھیجے تھے—فائل فوٹو

اسلام آباد: پاکستان کی جانب سے کرتارپور راہداری منصوبے پر معاہدے کے لیے مذاکرات کی دعوت دینے کے باوجود بھارت نے پاکستان کو اس معاملے پر گفتگو کرنے کے لیے نئی دہلی آنے کی دعوت دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نئی دہلی میں بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں نئی دہلی نے پاکستانی وفد کو گردوارا کرتارپور صاحب کی یاترا پر جانے والے بھارتیوں کے حوالے سے گفتگو کے لیے 26 فروری اور 7 مارچ کی تاریخ دی ہے۔

خیال رہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے مذکورہ بیان پاکستان کے کرتارپور راہداری پر بات چیت کے تیار کردہ مسودے کی فراہمی کے موقع پر سامنے آیا۔

یہ بھی پڑھیں: کرتارپور راہداری معاہدہ: حکومت پاکستان مسودہ بھارت کو بھیج چکی، دفتر خارجہ

پاکستان کی جانب سے کی گئی پیشکش کو قبول کرنے کے بجائے اپنی جانب سے دعوت نامہ بھیجنے کا مقصد بھارت کا اس تجویز کو قبول کرنے یا مسترد کرنے کے مشکل فیصلے سے بچنا ہے۔

واضح رہے اس سے قبل پاکستان بھارتی حکومت سے ’فوری طور پر وفد اسلام آباد بھیجنے‘ کا مطالبہ کرچکا تھا تاکہ معاہدے پر گفتگو کی جاسکے۔

خیال رہے بھارت میں موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات کو جواز بنا کر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی سے مکمل طور پر گریز کیا۔

مزید پڑھیں؛ ’کرتارپور راہداری کامطلب یہ نہیں کہ پاک بھارت مذاکرات شروع ہوں گے‘

علاوہ ازیں پاکستان کی جانب سے گرونانک کے 550ویں جنم دن پر کرتارپور راہداری کھولنے کے فیصلے کو بھی بھارت میں شک و شبے کی نظر سے دیکھا گیا تھا تاہم بھارت نے منصوبے کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے اپنی کابینہ کے 2 وزرا بھیجے تھے۔

بعدازاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بیان دیا تھا کہ وزیراعظم نے کرتارپور راہداری کا افتتاح کر کے گُگلی کروائی ہے جس کے ردعمل میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بیان دیا تھا کہ دونوں وزرا پاکستان مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے گئے تھے کسی گگلی سے متاثر نہیں ہوئے۔

بھارت کی دعوت پر دفتر خارجہ کے ترجمان اور کرتارپور راہداری معاملے کے فوکل پرسن ڈاکٹر محمد فیصل نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب کو معلوم ہے کہ دہلی کے دعوت نامے سے قبل اسلام آباد نے اس حوالے سے پیشکش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کرتارپور بارڈر کھولنا کیوں ضروری تھا؟

دوسری جانب بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ کرتارپور راہداری پر تعاون بھارتی حکومت کے 22 نومبر 2018 کے فیصلے کے تناظر میں کیا۔

واضح رہے کہ پاکستان سرحد سے لے کر کرتارپور صاحب گردوارے تک 4 کلومیٹر طویل راہداری تعمیر کرے گا جبکہ بھارت کی جانب سے مشرقی پنجاب میں ڈیرہ بابا نانک سے لے کر سرحد تک راہداری تعمیر کی جائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں