امریکا-طالبان مذاکرات کا نیا دور، توقعات میں اضافہ

اپ ڈیٹ 25 فروری 2019
اب تک امریکی افواج کے انخلا کے تعین اور جنگ بندی کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا —فوٹو: اے ایف پی
اب تک امریکی افواج کے انخلا کے تعین اور جنگ بندی کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا —فوٹو: اے ایف پی

کابل: افغانستان میں جاری 17 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان رہنماؤں اور امریکی نمائندے آج (پیر) ایک مرتبہ پھر قطر میں بات چیت کے لیے ملاقات کر رہے ہیں۔

گزشتہ ماہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والی ملاقات کے اختتام پر اُمیدیں اس وقت بڑھ گئیں جب دونوں فریقین ایک طریقہ کار وضع کرنے پر رضامند ہوئے جس میں طالبان کی جانب سے یہ یقین دہانی بھی شامل تھی کہ وہ افغانستان کو عالمی دہشت گرد گروہوں کی محفوظ پناہ گاہ بننے سے روکیں گے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق طالبان کے امریکا کے ساتھ ہونے والے یہ مذاکرات، 2001 میں امریکی فوج کے طالبان کو اقتدار سے محروم کردینے کے بعد سے لے کر اب تک کے سب جامع مذاکرات تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ’امریکا-طالبان مذاکرات کو آگے بڑھانے میں پاکستان کا پس پردہ اہم کردار‘

تاہم اب تک امریکی افواج کے انخلا کے تعین اور جنگ بندی کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا جبکہ گزشتہ ملاقاتوں کا محور یہی دونوں مسائل تھے۔

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد کے ساتھ ہونے والی اس ملاقات میں طالبان کے مزید اراکین بھی شرکت کریں گے جن میں سابق نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستنکزئی بھی شامل ہیں۔

واضح رہے کہ کسی فریق کی جانب سے مذاکرات کی طوالت یا اس میں زیر بحث آنے والے معاملات کے حوالے سے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گفت و شنید کے اس دور میں طالبان اپنے رہنماؤں کا نام اقوامِ متحدہ کی سفری پابندی کی فہرست سے خارج کرنے کا مطالبہ کریں گے جبکہ امریکا کی جانب سے ایک مرتبہ پھر طالبان پر افغان حکومت سے بات چیت کرنے کے دباؤ ڈالا جائے گا۔

اس ضمن میں انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے گریم اسمتھ کا کہنا تھا کہ ’دونوں فریقین کھلے ذہن اور جلد کسی نتیجے پر پہنچنے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دوبارہ اس عمل کا آغاز کریں گے کیوں جیسے جیسے موسم گرم ہونا شروع ہوگا لڑائی میں شدت آجائے گی۔

ایک امریکی تجزیہ کار کے مطابق اب نظریں طالبان پر لگی ہوئی ہیں کہ آیا وہ سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہیں کیوں کہ اس سے قبل وہ افغان حکومت کو کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ بات چیت کرنے سے صاف انکار کرچکے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ زلمے خلیل زاد نے جس طرح امن عمل کی کوششیں کی ہیں وہ گزشتہ 2 دہائیوں میں کوئی نہیں کرسکا۔

مزید پڑھیں: ’امریکا اور طالبان دونوں افغانستان میں جنگ نہیں جیت سکتے‘

ایک جانب جہاں افغانستان میں قیامِ امن کی کوششیں تیز ہورہی ہیں وہیں افغانستان کے اندر ایک خوف یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اگر امریکی افواج نے انخلا میں جلد بازی کی تو اس سے کئی شہریوں کی جانوں کی قیمت پر بننے والی حکومت کا خاتمہ کردیا جائے گا۔

ادھر خواتین اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے بھی خبردار کیا کہ طالبان کے ساتھ لچک دار معاہدے یا افواج کے فوری انخلا کا نتیجہ ان کے سخت دورِ حکمرانی کی واپسی یا مزید پرتشدد خانہ جنگی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں