جارحیت کا جواب دینا ہمارا حق، قوم کو مایوس نہیں کریں گے، وزیر خارجہ

اپ ڈیٹ 27 فروری 2019
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں، ان کے ساتھ وزیر خزانہ اسد عمر اور وزیر دفاع پرویز خٹک بھی موجود ہے— فوٹو: اے ایف پی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں، ان کے ساتھ وزیر خزانہ اسد عمر اور وزیر دفاع پرویز خٹک بھی موجود ہے— فوٹو: اے ایف پی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارت کا عمل پاکستان کے خلاف جارحیت ہے اور پاکستان اس کا جواب دے گا۔

اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر خزانہ اسد عمر موجودہ صورتحال کے پیش نظر مشترکہ پریس کانفرنس کی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ وزیر اعظم نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا، جس کے بعد اس حوالے سے آگاہ کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔

اس موقع پر انہوں نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ پڑھ کر سنایا، جس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ پاکستان مناسب وقت اور جگہ پر بھارتی مہم جوئی کا جواب دے گا۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ آج کے اجلاس کا خلاصہ یہ ہے کہ بھارت کا عمل پاکستان کے خلاف جارحیت ہے اور پاکستان اس کا جواب دے گا۔

مزید پڑھیں: مناسب وقت اور جگہ پر بھارتی مہم جوئی کا جواب دیں گے، پاکستان

انہوں نے کہا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا کل اجلاس بلایا گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی بلایا جائے گا، اس کے علاوہ وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر خزانہ اسد عمر اور میں (شاہ محمود قریشی) پر مشتمل ایک تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو پارلیمانی رہنماؤں سے بات کرے گی اور سیاسی قیادت سے مشاورت کرے گی اور اس صورتحال پر اعتماد میں لے گی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا کو موقع پر لے جایا جائے، موسم کی صورتحال بہتر ہونے پر انہیں ہیلی کاپٹروں میں لے جایا جائے گا تاکہ وہ خود جائے وقوع کو دیکھیں اور بھارتی پروپیگنڈے کو بے نقاب کریں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارتی پروپیگنڈا کو بے نقاب کرنے کے حوالے سے اندرونی آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں، محبوبہ مفتی کا بیان سامنے ہے کہ جو کہانی پیش کی جارہی ہے وہ حقائق کے برعکس ہے۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس میں پاکستان اور بھارت کے لیے اقوام متحدہ کا فوجی مبصر گروپ جن کی یہاں نمائندگی موجود ہے انہیں بھی جائے وقوع پر لےجانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ وہ پاکستان کے خلاف جارحیت اور اس کی سالمیت کی خلاف ورزی سے متعلق اقوام متحدہ کو اور اپنے متعلقہ ادارے کو آگاہ کریں اور ان کے سامنے حقائق رکھیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا کہ وزیراعظم اور دفتر خارجہ عالمی رہنماؤں سے رابطہ کریں اور اس حوالے سے آگاہ کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی ایئر فورس کی دراندازی کی کوشش، پاک فضائیہ کا بروقت ردِ عمل

اپنی گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی درخواست پر جدہ میں او آئی سی کے رابطہ گروپ کا اجلاس جاری ہے، جس میں سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ پاکستان کی نمائندگی کررہی ہیں جبکہ میری گزشتہ روز متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ سے گفتگو ہوئی اور یکم اور 2 مارچ کو او آئی سی کے وزرائے خارجہ اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ شسما سوراج کو مدعو کرنے پر پاکستان کے نقطہ نظر سے آگاہ کیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں نے تشویش کا اظہار کیا کہ اس اجلاس کے افتتاحی سیشن میں بھارتی وزیر خارجہ کو بطور مہمان خصوصی بلانے کے بارے میں پاکستان سے مشاورت نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ کل میں تاریخ کی بات کر رہا تھا اور میرا ذکر تھا کہ مشاورت کے بغیر ایک غیر او آئی سی رکن اور مبصر کو دعوت دی گئی لیکن آج صورتحال مکمل بدل چکی ہے، آج ایک او آئی سی کے بانی رکن کے خلاف جارحیت کی گئی بلکہ بھارت کے مسلمانوں خاص طور پر کشمیر کے مسلمانوں کو جس طرح نشانہ بنایا جارہا ہے وہ سامنے ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ واقعہ پلوامہ میں ہوتا ہے لیکن اس کا ردعمل بھارت کی 10 ریاستوں میں نظر آتا ہے، جہاں نئی دہلی میں مسلمان نوجوانوں پر حملے کیے جاتے، پونے میں ایک مسلمان وکیل اور کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافی پر حملہ کیا جاتا کیونکہ ان کا قصور ہے کہ وہ مسلمان اور کشمیری ہیں، ایسی صورتحال میں وہ ادارہ جو مسلمانوں کی آواز ہے وہ کس طرح ایسے ملک کو اجلاس میں مدعو کرسکتا ہے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے پارلیمانی قیادت کو آگاہ کرنا ہے، جس میں ہم انہیں حقائق پر اعتماد میں لیں گے، پاکستانی قوم کو باخبر رکھنا ہماری ذمہ داری اور حقائق سے آگاہ کرنا ہمارا فرض ہے، موجودہ منتخب حکومت اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

مزید پڑھیں: بھارتی دراندازی، اپوزیشن کا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ

اپنی گفتگو کے دوران انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کی جانب سے 21 فروری کو جاری ہونے والے بیان کو دنیا نے سراہا کیونکہ وہ ایک معقول بیان تھا، اس میں وزن تھا، اس میں تعاون کی پیشکش تھی، اس میں مسئلے کا حل بھی تھا جبکہ یہ بھی واضح تھا کہ اگر پاکستان کے خلاف جارحیت کی گئی تو ہم اپنے دفاع کا حق رکھتے ہیں۔

مذکورہ پریس کانفرنس میں شاہ محمود قریشی نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ کچھ دنوں میں انہوں نے مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ سے رابطے کیے، رابطوں کا مقصد انہیں اس بات سے آگاہ کرنا تھا کہ بھارت کے کیا عزائم نظر آرہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پلوامہ کا واقعہ 14 فروری کو ہوتا ہے اور پاکستان کے دفتر خارجہ میں کئی ہفتے پہلے پی 5 کے اجلاس میں ہم ممالک کو آگاہ کرچکے تھے کہ مودی سرکار سیاست کی ضروریات اور الیکشن کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی ایسی حرکت کرنے کی کوشش کررہی ہے، بھارت کی 5 ریاستوں میں جو نتائج آئے اور بی جے پی کو مسترد کیا گیا، اس کے بعد یہ تاثر ظاہر ہورہا تھا کہ اپنی سیاسی بقا کے لیے مودی سرکار نے کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جب میں نے خطے کی صورتحال کے حوالے سے مختلف ممالک کا دورہ کیا تو میں نے ماسکو میں وہاں کے وزیر خارجہ کو آگاہ کیا کہ خدشہ ہے کہ کہیں بھارت کچھ ایسی حرکت نہ کر دے، اگر ایسا کریں گے تو یہ خطے کے امن و استحکام کے لیے بہت بڑی ضرب ہوگی، لہٰذا آپ اپنی سفارتکاری کو بروئے کار لاتے ہوئے انہیں سمجھائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں خدشہ تھا اور اسی کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ کو آگاہ کیا اور ہم جو پیش بندی کرسکتے تھے وہ کی، یہ صورتحال سامنے آرہی ہے اور سیاسی، عسکری اور خارجی سطح پر پاکستان منصوبہ بندی کر رہا ہے اور جواب دے گا۔

پریس کانفرنس کے دوران وزیر دفاع پرویز خٹک سے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 'بھارتی طیارے 4 سے 5 کلو میٹر اندر آئے اور انہوں نے بم گرائے لیکن ہماری فورسز تیار تھیں، تاہم رات کے وقت کی وجہ سے نقصان کا معلوم نہیں ہوا'۔

ساتھ ہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاک فضائیہ پہلے سے ہی تیار تھی اور ان کی مداخلت سے ہی بھارتی طیارے پسپا ہوئے، 2 بجکر 55 منٹ پر وہ داخل ہوتے ہیں اور ہمارے ردعمل پر 2 بجکر 58 منٹ پر وہ واپس چلے جاتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ وقت ایئرفورس کی صلاحیت پر سوال اٹھانےکا نہیں، بھارتی عزائم کو پڑھنا اور اس پر کب، کیسے کرنا ہےاور کس نوعیت کا جواب دینا پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کا امتحان ہے، کشیدگی ہمارا مقصد تھا نہ ہے، ہم ہمیشہ کشیدگی کے خاتمے کی بات کرتے رہے ہیں لیکن جارحیت کا جواب دینا ہمارا حق ہے اور قوم مایوس نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ صورتحال بہت نازک ہے، پاکستان ایک ذمہ دار اور پر امن ملک ہے اور ہم پاکستان کی سرحدوں کا دفاع کرنا جانتے ہیں۔

پریس کانفرنس کے دوران ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے طیارے تاخیر کا شکار نہیں تھے، ہم بالکل تیار تھے اور وہ ہمیشہ چیلنج کا سامنا کرنے کو تیار ہوتے ہیں، پاکستان کے دفاع کے لیے ان صلاحیت کو کبھی کم نہیں سمجھیں، ہم اپنے وقت کے حساب سے جواب دیں گے، ہم عمل کریں گے ردعمل نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت ہوش کے ناخن لے ورنہ منہ کی کھانی پڑے گی، شاہ محمود

کرتارپور راہداری سے متعلق سوال پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کرتارپور ایک دیرینہ خواہش تھی، جسے پاکستان نے پورا کیا، اس میں ایک خیرسگالی، امن کا پیغام تھا جو پاکستان نے دیا، ہم نے کبھی امن کے پیغام سے آنکھ چرائی نہیں اور کبھی جارحیت سے گھبرائے نہیں، کرتارپور کے راستے ہم نے کھولے کاش کہ بھارت بھی اپنے ذہن کے راستے کھولے، ان کے راستے اس لیے بند ہے کیونکہ اس پر سیاست کا بھوت سوار ہے، وہ خطے کے امن و استحکام کو سیاست کی نذر کر رہے، وہ اقتدار کے نشے میں مست ہاتھی کی طرح دیواروں سے ٹکر مار رہے ہیں۔

او آئی سی اجلاس سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میں نے کل یو اے ای کے وزیر خارجہ سے بات ہوئی تھی لیکن جب یہ واقعہ نہیں ہوا تھا لیکن اب ان سے دوبارہ بات کی جائے گی۔

بھارتی جارحیت پر پاکستانی جواب سے متعلق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان وہ کرے گا جو اسے کرنا چاہیے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ایک بات ذہن میں رکھیں کہ پروپیگنڈا کرنا بھارت کا حق ہے لیکن ایک بات یاد رکھیں، الیکشن، الیکشن، الیکشن، سیاست دان کے سامنے جب ووٹ آتے ہیں تو اس کا دماغ گھوم جاتا ہے، ان کی باتوں میں مت آئیں وہاں کالعدم جیش محمد کی کوئی موجودگی نہیں تھی۔

خیال رہے کہ 26 فروری کو بھارت کی جانب سے آزاد کشمیر کے علاقے میں دراندازی کی کوشش کی گئی تھی جس پر پاک فضائیہ نے بروقت ردعمل دیتےہوئے دشمن کے طیاروں کو بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے بتایا تھا کہ آزاد کشمیر کے علاقے مظفرآباد میں داخل ہونے کی کوشش کر کے بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی خلاف ورزی کی۔

انہوں نے بتایا تھا کہ بھارتی فضائیہ نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی، جس پر پاک فضائیہ فوری طور پر حرکت میں آئی اور بھارتی طیارے واپس چلے گئے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پاک فضائیہ کے بروقت ردعمل کے باعث بھارتی طیارے نے عجلت میں فرار ہوتے ہوئے بالاکوٹ کے قریب ایک ہتھیار پھینکا تاہم اس سے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں