بڑھتے ہوئے مالی خسارے پر اراکینِ اسمبلی کا اظہارِ تشویش

اپ ڈیٹ 28 فروری 2019
حکومت نے 6 سیکٹرز میں ریسرچ پر مبنی ٹیکسیشن متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے —فوٹو: اے پی
حکومت نے 6 سیکٹرز میں ریسرچ پر مبنی ٹیکسیشن متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے —فوٹو: اے پی

اسلام آباد: ترقیاتی اخراجات میں کمی کے باوجود مالی سال 2019 کی پہلی ششماہی کے دوران بڑھتے ہوئے خسارے اور آمدنی میں کمی پر اراکینِ اسمبلی کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔

جس کے بعد حکومت نے آئندہ بجٹ میں ریونیو فراہم کرنے والے 6 سیکٹرز میں ریسرچ پر مبنی ٹیکسیشن متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس اینڈ ریونیو کے اجلاس میں سامنے آئی جس کی سربراہی کمیٹی چیئرمین اور تحریک انصاف کے رکنِ اسمبلی فیض اللہ نے کی۔

یہ بھی پڑھیں: ملکی معیشت 8 سال کی بدترین سطح پر پہنچ گئی

اجلاس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین ڈاکٹر جہانزیب خان نے بتایا کہ آئندہ مالی سال 20-2019 کا بجٹ پیش کرنے سے پہلے ایک جامع اصلاحاتی نظام پر عملدرآمد کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بین الاقوامی ماہرین کی مدد سے مختلف سیکٹرز کے ٹیکس کی حقیقی صلاحیت کا تجزیہ کرنے کے لیے مخصوص ریسرچ پیپرز تیار کیے گئے تاکہ ٹیکس نظام کو موثر بنایا جاسکے۔

چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ موجودہ مالی سال میں سیکٹر اسپیسفک ریسرچ پر مبنی ٹیکسیشن کے لیے سلسلے میں ابتدائی طور پر تمباکو، چینی اور اسٹیل کی صنعت کو منتخب کیا گی جبکہ آئندہ مالی بجٹ میں اس میں مشروبات، گھی، سیمنٹ اور جائیداد کے سیکٹرز کو بھی شامل کرلیا جائے گا۔

چیئرمین ایف بی آر نے یہ بھی بتایا کہ ورلڈ بینک کے تعاون سے آئی سی ٹی ڈیولپمنٹ پروگرام ہارڈ ویئر، سافٹ ویئر، ٹریننگ اور متعلقہ پہلوؤں کے لیے تکمیل کے قریب ہے۔

اس حوالے سے ڈاکٹر عائشہ غوث کا کہنا تھا کہ مالی سال کی ابتدائی ششماہی میں ظاہر ہونے والے شواہد کے مطابق سرکاری مالی صورتحال انتہائی بری ہے، دستیاب وسائل کی موجودہ صورتحال انتہائی سنگین ہے جس کی وجہ سے سال کے اختتام تک مالی خسارہ مجموعی ملکی پیداوار کے 7 فیصد سے بھی زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔

دوسری جانب ڈاکٹر جہانزیب کا کہنا تھا کہ 10 کھرب روپے کے خسارے میں ایف بی آر کا 17 فیصد حصہ ہے جو تقریباً 170 ارب روپے کے برابر ہے جس کی وجہ سے انکم ٹیکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے باعث ہونے والا نقصان 30 ارب روپے جبکہ حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم رکھنے کے سبب 70 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

مزید پڑھیں: ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 47 فیصد تک کمی، برآمدات میں اضافہ

اس سلسلے میں حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ بدقسمتی نے عالمی بینک کے تعاون سے شروع کیے جانے والے اصلاحاتی نظام کے مثبت نتائج نہیں ملے کیوں کہ ریونیو مشینری کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔

اس ضمن میں چیئرمین ایف بی آر کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ ٹیکس قوانین کے تحت زائد ٹیکس وصولی کی وجہ سے کاروبار متاثر ہوئے تاہم اب پالیسی میں تبدیلی کی جارہی ہے تاکہ معاشی صورتحال بہتر اور آمدنی میں اضافہ ہو جس کے لیے جدید طریقے اپنائے جارہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں