پاکستان اور بھارت پر مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے پر زور

اپ ڈیٹ 04 مارچ 2019
مظاہرین نے جنگ کے خلاف نعرے لگائے اور امن کا پیغام دیا— فوٹو: اے پی
مظاہرین نے جنگ کے خلاف نعرے لگائے اور امن کا پیغام دیا— فوٹو: اے پی

لاہور: جنوبی ایشیا میں امن کے لیے عالمی مطالبے کے ساتھ قدم سے قدم ملانے کے لیے سول سوسائٹی اراکین اور امن پسند کارکنان ’جنگ نہ کرو‘ (Say No To War) کے نعرے کے تحت لبرٹی چوک پر جمع ہوئے۔

شہریوں کی جانب سے شروع کیے گئے اس ایونٹ کا انعقاد عالمی سطح پر مختلف شہروں میں کیا گیا اور اسے پاکستان اور بھارت سے امن سے محبت کرنے والوں نے شروع کیا، جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان ممالک کے درمیان اچھے ہمسائے کے طور پر تعلقات کے خواہاں ہیں اور تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ’بھارتی وزیراعظم نے فضائی حملے کی کامیابی کو خود ہی مشکوک بنا دیا‘

امن پسند کارکنوں کی جانب سے عوام کو بھی دعوت دی گئی تھی کہ وہ، دنیا میں کہیں بھی ہیں، اس کا حصہ بنیں اور جنوبی ایشیا میں جنگ، تشدد اور تعصب کے خلاف یکجہتی کا اظہار کریں کیونکہ جوہری طاقتیں پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی کشیدگی خطے کو طویل عرصے تک یرغمال بنا دے گی۔

مظاہرین کی جنگ مخالف نعرے ’جنگ نہیں امن‘ بھی لگائے گئے جبکہ انہوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور پینافلیکس اٹھا رکھے تھے، جس پر ’ہم امن کے لیے کھڑے ہیں، جنگ کے خلاف ہیں اور ہم جنوبی ایشیا میں امن چاہتے ہیں‘ کے نعرے درج تھے۔

احتجاج کرنے والے کارکنان کا تعلق مختلف سول سوسائٹیز اور سیاسی تنظیموں، ورکر پارٹی، انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان، ویمن ایکشن فورم، عاصمہ جہانگیر لیگل ایڈ سیل، ڈیموکریسی رپورٹنگ انٹرنیشنل، جنوبی ایشیا پارٹنرشپ پاکستان اور مزدور یونینز، ویمن ان اسٹرگل فار امپاورمینٹ، عورت فاؤنڈیشن، بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ اور رواداری تحریک سے تھا۔

اس موقع پر ورکرز پارٹی کے رہنما فاروق طارق کا کہنا تھا کہ وہ کسی قسم کی جنگ نہیں چاہتے، دونوں ممالک کو سرحد کے دونوں جانب کشمیر سے فوج کو واپس بلا لینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’بھارت اور پاکستان کو لائن آف کنٹرول کے ساتھ کے علاقوں پر شیلنگ بند کرنی چاہیے اور کشمیریوں کا قتل بند ہونا چاہیے‘۔

یہ بھی پڑھیں: امن کی طرف واپس لوٹنے کی ضرورت ہے

فاروق طارق نے دونوں ممالک کی حکومت پر زور دیا کہ ’وہ مذہبی بنیاد پرستوں کی فنڈنگ روکے اور متشدد لوگوں کے ساتھ تمام رابطے ختم کریں، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ریاستیں مذہبی نہیں ہونی چاہیے’۔

اس دوران صحافی منیزہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ وہ ایل او سی پر مسلسل شیلنگ کی مذمت کرتی ہیں اور کشمیریوں کی زندگی ایسی چیز نہیں جس سے آرام سے کھیلا جائے۔


یہ خبر 04 مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں