سانحہ ساہیوال: لاہور ہائی کورٹ میں جے آئی ٹی کی رپورٹ جمع

سانحہ ساہیوال میں پولیس مقابلے میں 4 افراد ہلاک ہوئے تھے — فائل فوٹو/ڈان نیوز
سانحہ ساہیوال میں پولیس مقابلے میں 4 افراد ہلاک ہوئے تھے — فائل فوٹو/ڈان نیوز

لاہور ہائیکورٹ میں سانحہ ساہیوال سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ جمع کرائی گئی۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردار محمد شمیم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

جے آئی ٹی کے سربراہ اعجاز شاہ نے سانحہ ساہیوال سے متعلق رپورٹ جمع کروادی۔

دوران سماعت سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں سانحہ ساہیوال میں جاں بحق ہونے والے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے اور اس کا تعلق داعش سے بتایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ذیشان اب مارا جاچکا ہے اور اس کا کیس داخلِ دفتر کردیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ گرفتار 6 اہلکاروں کے خلاف رپورٹ ان کے خلاف 63 گواہان کی فہرست بھی ٹرائل کورٹ میں جمع کروادی گئی۔

مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال: جج کا واقعے کے ثبوت فراہم کرنے کیلئے عوامی نوٹس

انہوں نے کہا کہ 7 مارچ کو ساہیوال کی مقامی عدالت نے ملزمان کو طلب کر رکھا ہے اور عدالت نے جو جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا تھا وہ جاری ہے تاہم جوڈیشل کمیشن کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ ’ایک ماہ میں جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا تھا، 14 مارچ کو مدت پوری ہو رہی ہے، رپورٹ داخل کریں‘۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت 18 مارچ تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں 6 پولیس اہلکاروں کو واقعے کا ملزم قرار دیا گیا تھا۔

جے آئی ٹی نے ساہیوال سانحے میں قتل ہونے والے ذیشان جاوید کو ’دہشت گرد‘ قرار دینے کے بعد احتشام کے خلاف کارروائی کی پیشکش بھی کی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ذیشان کے دہشت گرد تنظیم داعش سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں سے تعلقات تھے جن میں سے کئی کا نام ریڈ بک میں اشتہاری کے طور پر موجود تھا۔

ساہیوال واقعہ

واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جن کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست شامل تھے۔

بچے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن ا س کے باوجود اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال: جے آئی ٹی نے تحقیقات کیلئے مزید 10 روز مانگ لیے

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس واقعے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ’اس واقعے میں جو بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔

یاد رہے کہ واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

بعد ازاں وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے مؤقف کے مطابق ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

راجہ بشارت نے کہا تھا کہ ’ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کےقتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا‘۔

تاہم وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور ان کی میت کی تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ذیشان کے بھائی احتشام نے کہا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں رکھی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔

بعد ازاں پولیس کی جانب سے ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے، جس کے بعد احتجاج ختم ہوگیا تھا۔

دوسری جانب سانحے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی نے 72 گھنٹے کی ڈیڈ لائن مکمل ہونے پر ابتدائی رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب کو پیش کردی تھی۔

رپورٹ پر بریفنگ دیتے ہوئے وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق خلیل اور اس کے اہل خانہ بے گناہ تھے جبکہ ذیشان کے حوالے سے انہوں نے مزید تفتیش کیلئے مہلت طلب کی تھی۔

خیال رہے کہ صوبائی وزیر راجہ بشارت نے ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے آپریشن کو 100 فیصد درست قرار دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں