سانحہ ساہیوال میں متاثرہ خاندان کے وکیل احتشام امیر الدین نے کہا ہے کہ جاں بحق خلیل کے اہلِ خانہ واقعہ کی تفتیش کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہیں۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'ذرا ہٹ کے' میں گفتگو کرتے ہوئے احتشام امیر الدین کا کہنا تھا کہ خلیل کے اہلِ خانہ کا مطالبہ تھا کہ ساہیوال واقعہ میں سی ٹی ڈی کے سب انسپکٹر کی مدعیت میں درج ہونے والی پہلی ایف آئی آر کو خارج کیا جائے، جس میں کہا گیا تھا کہ خلیل، ان اہلیہ، بیٹی اور دوست ذیشان دہشت گردوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے اور ان کی گاڑی سے اسلحہ اور خود کش جیکٹس برآمد ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ 'بدقسمتی سے آج جب متاثرہ خاندان جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوا تو ان کے اس مطالبہ کو مسترد کردیا گیا اور اسی وجہ سے ان کا تفتیش پر اعتماد ختم ہوگیا، لہٰذا خاندان کے کسی فرد نے بھی اپنا بیان ریکارڈ نہیں کروایا'۔

ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو جے آئی ٹی کو جائے وقوع سے شواہد جمع کرنے چاہیے تھے اور پھر ایک اہم بات کہ واقعہ میں بچ جانے والے بچے کا بیان انتہائی اہم ہے جسے کسی صورت بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔

احتشام امیر الدین کا کہنا تھا کہ واقعہ کے بعد بچے نے ہسپتال پہنچ کر جو ویڈیو بیان ریکارڈ کروایا وہ اس کیس میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور قانون کی رو سے اگر بچہ 10 سال کا ہو تو اس کے بیان کو شاملِ تفتیش کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: ساہیوال کا آپریشن 100 فیصد درست تھا، وزیرقانون پنجاب

انہوں نے کہا کہ 'میں آپ کو 100 ایسے کیسز کی مثالیں دے سکتا ہوں جہاں بچوں کی گواہیوں پر ملزمان کو سزائیں ہوئیں۔

اس سوال پر کہ اب تک کی تفیش میں کیا یہ بات حتمی طور پر معلوم ہوسکی کہ واقعے میں کل کتنے سی ٹی ڈی اہلکار شامل تھے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ یہی اعتراض ہمیں جے آئی ٹی سے ہے کہ کیا یہ بھی معلوم نہیں کیا جاسکتا کہ اُس وقت کون کون سے اہلکار ڈیوٹی پر تھے تاکہ ان سے تفیتش کی جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ جب ہمیں ابھی تک پولیس اہلکاروں کا پتہ ہی نہیں لگا سکے تو آگے انصاف کے تقاضے کیسے پورے ہوں گے۔

احتشام امیر الدین نے کہا کہ خلیل کے اہلِ خانہ پہلی ایف آئی آر کو خارج کروانے کیلئے اب ہائیکورٹ سے رجوع کرنا چاہتے ہیں، لیکن ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اس پہلی ایف آئی آر کی نقل فراہم نہیں کی جارہی جو سی ٹی ڈی کی طرف سے درج کی گئی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اہلِ خانہ کے بار بار اصرار پر جب انہیں ایف آئی آر کی نقل فراہم کی گئی تو وہ نہ صرف پہلی ایف آئی آر سے مخلتف تھی، بلکہ اس میں گاڑی کا نمبر بھی غلط لکھا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ تیسری بار جب پنجاب حکومت کے ترجمان شہباز گِل نے ایف آئی آر کی کاپی دی تو بھی اس میں گاڑی کا ایک نیا نمبر درج تھا جو ہاتھ سے لکھی گئی ایف آئی آر سے مختلف تھا۔

احتشام امیر الدین نے سوال کیا کہ آخر کس وجہ سے اس ایف آئی آر کو خارج نہیں کیا جارہا اور اگر اسی طرح تفتیش جاری رہی تو متاثرہ خاندان کو کس طرح انصاف مل سکے گا۔

ساہیوال واقعہ

واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جن کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست شامل تھے۔

بچے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن ا س کے باوجود اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کو تیار ہوں، وزیراعظم

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس واقعے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ’اس واقعے میں جو بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔

یاد رہے کہ واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

بعد ازاں وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے مؤقف کے مطابق ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

راجہ بشارت نے کہا تھا کہ ’ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کےقتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا‘۔

تاہم وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور ان کی میت کی تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ذیشان کے بھائی احتشام نے کہا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں رکھی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔

بعدازاں پولیس کی جانب سے ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے، جس کے بعد احتجاج ختم ہوگیا تھا۔

دوسری جانب سانحے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی نے 72 گھنٹے کی ڈیڈ لائن مکمل ہونے پر ابتدائی رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب کو پیش کردی تھی۔

رپورٹ پر بریفنگ دیتے ہوئے وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق خلیل اور اس کے اہل خانہ بے گناہ تھے جبکہ ذیشان کے حوالے سے انہوں نے مزید تفتیش کیلئے مہلت طلب کی تھی۔

خیال رہے کہ صوبائی وزیر راجہ بشارت نے ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے آپریشن کو 100 فیصد درست قرار دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں