گواہی دینے سے انکار پر خفیہ راز افشا کرنے والی اہلکار دوبارہ قید

اپ ڈیٹ 09 مارچ 2019
چیلسی میننگ کو 2010 میں گرفتار کیا گیا تھا — فوٹو: اے ایف پی
چیلسی میننگ کو 2010 میں گرفتار کیا گیا تھا — فوٹو: اے ایف پی

واشنگٹن: امریکی فوج کی خفیہ دستاویزات لیک کر کے وکی لیکس کو دینے کے الزام میں 3 سال قید کاٹنے والی خاتون چیلسی میننگ کو گرینڈ جیوری تحقیقات میں گواہی دینے سے انکار کرنے پر دوبارہ جیل بھیج دیا گیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ورجینیا کی وفاقی عدالت میں امریکی اٹارنی کے ترجمان کے مطابق، امریکا کے ڈسٹرک جج کلاڈ ہلٹن نے چیلسی میننگ کو سزا کے طور پر نہیں بلکہ خفیہ کیس میں گواہی کے لیے مجبور کرنے کے لیے قید کرنے کا حکم دیا۔

دوسری جانب چیلسی میننگ کی حمایت کرنے والی تنظیم، اسپیرو پرجیکٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’چیلسی میننگ کو گواہی دینے سے انکار کرنے کی وجہ سے ریمانڈ پر وفاق کے حوالے کیا گیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: ’وکی لیکس کو حساس ڈیٹا دینے والے فوجی کی سزا معاف‘

بیان کے مطابق جج کلاڈ ہلٹن نے کہا کہ ’چیلسی میننگ غیر معینہ مدت تک قید رہیں گی جب تک وہ خود ختم نہ ہوجائیں یا گرینڈ جیوری ختم نہ ہو جائے’۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق 31 سالہ چیلسی میننگ نے 2010 میں وکی لیکس اور اس کے بانی جولین اسانج کے اقدامات کے حوالے سے جاری تحقیقات میں گواہی دینے سے انکار کردیا تھا جس پر انہیں رواں ہفتے توہین عدالت کی سزا سنائی گئی تھی۔

خیال رہے کہ بریڈلے میننگ (خواجہ سرا) کو 2010 میں گرفتار کیا گیا تھا اور اس وقت اس کا نام بریڈلے میننگ تھا تاہم بعد میں انہوں نے خود کو عورت کہنا شروع کردیا تھا اور اپنا نام بریڈلے سے چیلسی میننگ کرلیا تھا اور اب انہیں خاتون چیلسی میننگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: وکی لیکس کو سی آئی اے کے راز کیسے پتہ چلے؟

چیلسی میننگ نے بغداد میں بطور انٹیلی جنس تجزیہ کار کام کے دوران 2009 اور 2010 کے عرصے میں عراق اور افغانستان جنگ کی 70 ہزار سے زائد رپورٹس، سفارتی اور دیگر خفیہ دستاویزات اور خفیہ ویڈیو کلپس وکی لیکس کو فراہم کرنے کا اعتراف کیا تھا.

بریڈلے میننگ کو حساس دستاویز لیک کرنے کے الزام میں 35 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جس میں 6 سال قید میں رہنے کے بعد اور سابق امریکی صدر باراک اوبامہ کی جانب سے سزاوں میں تخفیف کے اعلان کے بعد 17 مئی 2017 کو ان کی سزا ختم کردی گئی تھی.


یہ خبر 9 مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں