کمپنی نے اشتہار کو ہٹادیا—فائل فوٹو: آئی اسٹاک
کمپنی نے اشتہار کو ہٹادیا—فائل فوٹو: آئی اسٹاک

امریکی ملٹی نیشنل فوڈ چین ’’برگر کنگ‘ کو نیوزی لینڈ میں نسل پرستانہ اشتہار جاری کرنے پر معافی مانگنی پڑ گئی۔

برگر کنگ نے کچھ دن قبل ہی ایک متنازع اور نسل پرستانہ اشتہار جاری کیا تھا، جس پر کمپنی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

لوگوں کی سخت تنقید کے بعد اگرچہ ’برگر کنگ‘ نے اپنے اشتہار کو نیوزی لینڈ میں سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ہٹادیا، تاہم کمپنی ’چکن سینڈوچ کے ویتنامی اسٹائل‘ کو فروخت کرنے کے لیے اشتہاری مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔

نیوزی لینڈ ہیرالڈ کے مطابق ملٹی نیشنل امریکی فاسٹ فوڈ چین’برگر کنگ‘ نے حال ہی میں نیوزی لینڈ میں چکن سینڈوچ کے ویتنامی اسٹائل کو فروخت کرنے کے لیے ایک اشتہار جاری کیا تھا۔

مختصر دورانیے کے اشتہار میں لوگوں کو چاپ اسٹکس کی مدد سے کمپنی کا ’چکن سینڈوچ‘ کھاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

کمپنی کی جانب سے اس اشتہار کو انسٹاگرام اکاؤنٹ پر جاری کیا گیا تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگیا تھا اور کئی لوگوں نے اس پر حیرت کا اظہار کیا تھا۔

کمپنی نے اشتہار کو جاری کرتے ہوئے کیپشن میں لکھا تھا کہ نیوزی لینڈ میں کمپنی کا ویتنام کا مشہور’چکن سویٹ چلی ٹینڈرکرسپ‘ دستیاب ہے اور منفرد ذائقے کے اس’چکن سینڈوچ‘ کے محدود اسٹاک سے لطف اندوز ہونے کا موقع مت گنوائیں۔

کمپنی کی جانب سے اشتہار کو جاری کرتے ہی اسے درجنوں افراد نے دیکھا اور اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ’برگر کنگ‘ پر نسل پرستی کا الزام عائد کیا۔

سب سے پہلے برگر کنگ کے اشتہار پر کورین نژاد نیوزی لینڈ کی خاتون نے اعتراض کیا اور اسے نسل پرستانہ تشہیر قرار دیتے ہوئے کمپنی کو آڑے ہاتھوں لیا۔

بعد ازاں دیگر کئی سوشل میڈیا صارفین نے بھی ’برگر کنگ‘ پر تنقید کی اور کمپنی کے اشتہار کو نسل پرستانہ قرار دیتے ہوئے اسے ’چکن ویتنامی چلی سویٹ سینڈوچ‘ کو فروخت کرنے کا انتہائی برا خیال قرار دیا۔

لوگوں کی تنقید کے بعد ’برگر کنگ‘ نے اشتہار کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ہٹائے ہوئے صارفین سے معذرت بھی کی۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی کمپنی کو اشتہار پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

گزشتہ ماہ ہندوؤں کے مذہبی تہوار ہولی کے موقع پر سرف ایکسل کی جانب سے جاری کیے گئے ایک اشتہار پر بھی بھارتی افراد نے احتجاج کیا تھا اور اشتہار کو نسل پرستانہ قرار دیا تھا۔

اشتہار میں ایک بچی ہولی کے تہوار میں دوسرے بچوں کی جانب سے پھینکے جانے والے رنگوں سے اپنے مسلم دوست کو بچاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

اس سے قبل اپریل 2017 میں پیپسی کولا کو بھی ایک اشتہار پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

پیپسی کولا کے اشتہار میں ماڈل کینڈل جینر کو دکھایا گیا تھا، اشتہار میں اشتہار میں ماڈل ایک فوٹو شوٹ کررہی ہوتی ہیں جب اسے مظاہرین کا ایک گروپ نظر آتا ہے، وہ اس میں شمولیت کا فیصلہ کرتی ہے اور آخر میں پولیس افسر کو ایک پیپسی کی پیشکش کرتی ہے جو قبول کرکے مسکرانے لگتا ہے۔

اس اشتہار پرامریکا میں سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے چلنے والی مہم اور سماجی انصاف کو سافٹ ڈرنکس فروخت کرنے کے لیے استعمال کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

اسی طرح اکتوبر 2017 میں باڈی لوشنز اور شیمپو کے انٹرنیشنل برینڈ ڈو کو بھی اپنے نسل پرستانہ اشتہار کی وجہ سے عوام سے معافی مانگنی پڑی تھی۔

ڈی واش کے اشتہار میں دکھایا گیا تھا کہ ایک سیاہ فام خاتون نے ڈو کا لوشن استعمال کیا جس کے بعد جب انہوں نے اپنی شرٹ تبدیل کی تو اندر سے ایک گوری رنگت کی خاتون سامنے آئیں۔

اس اشتہار کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے بعد کمپنی نے عوام سے معافی مانگی تھی۔

اس کے علاوہ بھی مختلف ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنے متنازع اشتہارات کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں