برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے حال میں جلیانوالہ باغ سانحے پر ’گہرے افسوس‘ کا اظہار کیا ہے، جس کی ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں 100 سالہ یاد آج منائی جا رہی ہے۔

ہندوستانی میڈیا کے مطابق تھریسامے نے اگلے ہی دن برسلز میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بریگزٹ مقررہ مدٹ میں نہ ہونے پر ’نہایت افسوس‘ کا اظہار کیا۔ برطانوی حکومت کی جانب سے کی جانے والی بربریت اور سنگ دلی پر واضح انداز میں معافی نہ مانگنے کی ہمت پیدا نہ کرنا دراصل اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ تاریخ سے سبق حاصل کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ برطانیہ کو جنوبی ایشیا چھوڑے 70 برس بیت گئے مگر ’مقامی افراد‘ پر ظلم و بربریت کے سلسلے وقتاً فوقتاً جاری رہے۔

سری نگر سے تری ونڈرم، کوئٹہ سے ڈھاکا، حقیقی آزادی کے وعدے نے نئے بننے والے ممالک میں جمہوریت کے سوال کو ایک طرف کردیا جبکہ کلونیل دور کے کئی غاصبانہ ہتھکنڈوں اور طور طریقوں کو داغدار صبح آزادی کے بعد نئے حکمرانوں نے عام روایات کے طور پر اپنا لیا۔

جلیانوالہ باغ قتل عام 13 اپریل 1919ء کو امرتسر میں ہوا تھا، جہاں برطانوی فوج نے پرامن احتجاج، جس میں زیادہ تر سکھ مرد و خواتین شامل تھے، پر گولیاں برسا کر ان کا قتل عام کیا۔ اس دن 15 ہزار سے زائد افراد بیساکھی کا تہوار منانے کے لیے عوامی پارک میں جمع ہوئے تھے، جہاں سے باہر جانے کا ایک ہی تنگ راستہ تھا۔

وہ لوگ ہتک آمیز رولیٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج کے لیے اکٹھا ہوئے تھے، اور جنرل ریجینالڈ ڈائر انہیں خاموش کرنے نکلے تھے۔ بغیر کسی وارننگ کے اچانک بندقوں سے 1650 گولیاں چلائی گئیں۔ اس واقعے میں 500 سے 600 کے درمیان لوگوں کی موت ہوئی، کچھ اندازوں کے مطابق اموات کی تعداد ایک ہزار تھی جبکہ زخمیوں کی تعداد اس سے 3 گنا زیادہ تھی۔

خون کی اس ہولی کے رد عمل کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان شاذونادر دکھائی دینے والی قربت کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ 1916ء میں لکھنؤ پیکٹ کے بعد سے قائد اعظم محمد علی جناح اور گاندھی نے اہم کردار ادا کیا تھا، برطانوی حکومت کو اس اتحاد میں اپنے وجود کے لیے خطرہ نظر آیا تھا۔

چند دانشوروں مانتے ہیں کہ اگر برطانیہ نے ہندوستان 1919ء میں چھوڑا ہوتا، تو غیر منقسم ہندوستان کی تاریخ کافی مختلف ہوتی، کیونکہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہندوستانیوں نے مل کر ایک مقصد کے لیے قربانی دی اور یہ جنگ شروع کی۔ جس کے جواب میں ذلت آمیز قانون تھونپا گیا، جس کے تحت ہندوستانیوں پر جلسے جلوس کرنے کی ممانعت عائد کی گئی جبکہ امرتسر کی اس گلی میں گھٹنوں کے بل چلنے کا حکم دیا گیا تھا کہ جہاں پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہندو اور مسلمان رہنماؤں کی ملک بدری کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران ایک مشنری عیسائی خاتون زخمی ہوئی تھی۔

کلونیل دور کا خاتمہ بھلے ہی ہوچکا ہو مگر اس دور کے قوانین اب بھی ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں پائے جاتے ہیں، کبھی انہیں فوج نافذالعمل کرواتی ہے تو کبھی عوامی نمائندے اور سب سے بڑھ کر تو ریاست کے حمایت یافتہ ہجوم ان پر عمل کرتے ہیں، جوکہ برطانیہ کی جانب سے حقیقی آزادیوں کی جدوجہد کو کچلنے کے طریقے کا ایک جدید انداز ہے۔


یہ اداریہ 13 اپریل 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں