دنیا کی 65 فیصد آبادی ’انصاف کی بامعنی’ رسائی سے محروم

30 اپريل 2019
عالمی سطح پر تنازع کی وجہ سے ہر سال دنیا کو فی شخص 2 ہزار ڈالر کا نقصان ہوتا ہے — فوٹو: رائٹرز/فائل
عالمی سطح پر تنازع کی وجہ سے ہر سال دنیا کو فی شخص 2 ہزار ڈالر کا نقصان ہوتا ہے — فوٹو: رائٹرز/فائل

ایک عالمی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے تقریباً 5 ارب 10 کروڑ افراد انصاف کی بامعنی رسائی سے محروم ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ٹاسک فورس برائے انصاف کی جانب سے تیار کی گئی رپورٹ ہیگ میں ورلڈ جسٹس فورم میں 29 اپریل کو جاری کی گئی تھی۔

رپورٹ میں نا انصافی کی وبا کی نشاندہی کی گئی جو دنیا بھر کے ممالک خصوصاً غریبوں کو سب سے زیادہ اثر انداز کرتی ہے۔

جسٹس ٹاسک فورس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں انصاف کا نظام 5 ارب 10 کروڑ افراد کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ چاہے وہ تشدد کا شکار ہوں، طلاق چاہتے ہوں، ملازمت پر ہراساں کیے جانے کا سامنا ہو، گردشی قرضے سے نمٹ رہے ہوں یا کاروباری پرمٹ چاہیے ہو، وہ اخراجات اور پیچیدہ طریقہ کار کی وجہ سے رک جاتے ہیں، انہیں بداعتمادی کا بھی سامنا ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ انصاف ہوگا یا نہیں۔

ٹاسک فورس برائے انصاف میں ارجنٹائن، نیدرلینڈز، سیرالیون کے وزرا اور عالمی رہنماؤں پر مشتمل غیر سرکاری تنظیم دی ایلڈرز شامل ہے جو مل کر امن، انصاف اور انسانی حقوق کے لیے کام کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: میانمار کے خلاف عالمی عدالت کی کارروائی،’سزا کا امکان نہیں‘

ایک عالمی رپورٹ کے مطابق یہی اختلاف ممالک کو ان کی معاشی اور سماجی طاقت کے حصول میں رکاوٹ ہیں۔

پُرامن، انصاف پسند معاشروں کےقیام کے لیے نیو یارک یونیورسٹی کے سینٹر برائے بین الاقوامی تعاون کی جانب سے ایک عالمی اشتراک قائم کیا گیا ہے، جو اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے مقاصد کی فراہمی اور 2030 تک سب کو انصاف فراہم کرنے کے عزم پر کام کررہا ہے۔

اس اشتراک میں سرکاری اور نجی شعبے سے انصاف کے رہنماؤں کا ممتاز گروہ اور سول سوسائٹی کے ماہرین شامل ہیں جو دنیا بھر میں انصاف میں اضافے سے متعلق آگاہی فراہم کررہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 25 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد ناانصافی کی انتہائی خراب صورتحال میں زندگی گزار رہے ہیں، وہ ماڈرن غلام ہیں، ریاست کے بغیر ہیں یا ان کے ممالک، کمیونیٹیز تنازع، تشدد اور لاقانونیت کا شکار ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا کہ 4 ارب 50 کروڑ افراد قانون کی جانب سے فراہم کیے جانے والے مواقع میں شامل نہیں، ان کے پاس قانونی شناخت، ان کی ملازمت سے متعلق، خاندان یا جائیداد سے متعلق دستاویزات موجود نہیں اور اسی لیے وہ معاشی مواقع، پبلک سروسز اور قانون کے تحفظ تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔

ایلڈر اور ٹاسک فورس کی شریک چیئرمین حنا جیلانی، جو ایک نامور وکیل اور جمہوریت پسند مہم کا حصہ ہیں، نے کہا کہ ’انصاف کا خلا، بنیادی عدم مساوات اور اقتدار میں اختلافات کا عکاس ہے جو ان میں عدم مساوات میں کردار بھی ادا کرتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ناانصافی کا بوجھ خواتین، بچوں اور ایسے گروہوں پر بہت زیادہ ہوتا ہے جو نظام انصاف تک رسائی اور اپنے حقوق استعمال کرنے کی سخت جدوجہد کرتے ہیں۔

انصاف کی فراہمی کی ایک بڑی قیمت سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا کہ انصاف کے مسائل کے شکار افراد کو صحت اور مالی حالات کی بگڑتی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایران پر پابندی کیس: امریکا نے عالمی عدالت کا دائرہ اختیار مسترد کردیا

اکنامک کوآپریشن اور ڈیولمپنٹ سے متعلق تنظیم کے اندازے کے مطابق انصاف کی تلاش، کم آمدن، دباؤ سے متعلق بیماریوں اور صحت کے دیگر مسائل کی وجہ سے ان ممالک کو مجموعی ملکی پیداوار کا 0.5 سے 3 فیصد کے درمیان خسارے کا سامنا ہوتا ہے۔

عالمی سطح پر تنازع کی وجہ سے ہر سال دنیا کو فی شخص 2 ہزار ڈالر کا نقصان ہوتا ہے جبکہ غیر تنازعاتی تشدد کی سطح زیادہ ہونے کی وجہ سے ممالک اپنی مجموعی ملکی پیداوار کا پانچواں حصہ کھوسکتے ہیں۔

ٹاسک فورس کی رکن، سیرالیون کی پہلی اٹارنی جنرل اور وزیر برائے انصاف پریسکیلا شوارٹز نے کہا کہ ‘ناانصافی مزید ناانصافی پیدا کرتی ہے، یہ انتہا پسند تحریکوں میں اضافے کی صورتحال پیدا کرتی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’رسمی قانونی ادارے اہم ہیں لیکن وہ ممالک کو درپیش انصاف کی طلب کو پورا کرنے کے لیے سست روی کا شکار ہیں جبکہ یہ انتہائی مہنگے بھی ہیں‘۔

نیدر لینڈز کی وزیر برائے فارن ٹریڈ اور ٹاسک فورس برائے انصاف کی رکن سگریڈ کاگ نے کہا کہ ‘انصاف تک رسائی ریاست کی ذمہ داری ہے جس میں انصاف کی مکمل فراہمی کے لیے مختلف افراد کی ضرورت ہے، لوگوں اور انصاف کو ایک دوسرے کے ہاتھ سے ہاتھ ملا کر چلنا چاہیے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر شہریوں کو قانون کی سمجھ بوجھ اور یہ معلوم ہو کہ انصاف کیسے ملتا ہے تو معاشرے کو فائدہ ہوتا ہے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں