ایران کی طرف سے غیر واضح خطرات: امریکی 'بی 52' بمبار قطر پہنچ گئے

10 مئ 2019
تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ 'بی 52 ایچ' اسٹراٹوفورٹریس بمبار قطر میں العُدید ایئربیس کی طرف آرہے ہیں — فوٹو: اے پی
تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ 'بی 52 ایچ' اسٹراٹوفورٹریس بمبار قطر میں العُدید ایئربیس کی طرف آرہے ہیں — فوٹو: اے پی

امریکی فضائیہ نے اعتراف کیا ہے کہ ایران کی طرف سے خلیج فارس میں غیر واضح خطرات کے باعث وائٹ ہاؤس کے احکامات کے بعد قطر میں امریکا کی اہم ایئربیس پر 'بی 52' بمبار تعینات کر دیئے گئے ہیں۔

امریکی خبر رساں ایجنسی 'اے پی' کے مطابق امریکی فضائیہ کی سینٹرل کمانڈ کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جمعرات کی رات 'بی 52 ایچ' اسٹراٹوفورٹریس بمبار قطر میں العُدید ایئربیس کی طرف آرہے ہیں۔

امریکی فضائیہ کا کہنا تھا کہ دیگر بمباروں نے جنوب مغربی ایشیا میں نامعلوم مقام پر لینڈ کیا۔

ماضی میں امریکی فوج جنوب مغربی ایشیا میں متحدہ عرب امارات کی الدَھفرا ایئربیس اور قطر کی العدید ایئربیس میں اپنی موجودگی سے متعلق بتا چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے ایران پر مزید معاشی پابندیاں عائد کردیں

امریکی فضائیہ نے لوزیانا کی بارکسڈیل ایئر فورس بیس کے 20ویں بم اسکواڈرن سے آنے والے جہاز کے طور پر نشاندہی کی۔

گزشتہ اتوار کو وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا تھا کہ وہ تہران کی طرف سے موجود خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے خلیج فارس میں یو ایس ایس اَبراہم لِنکن ایئرکرافٹ کیریئر اسٹرائیک گروپ اور بمباروں کو بھیجے گا۔

لنکن ایئرکرافٹ کیریئر نے خلیج فارس آتے ہوئے جمعرات کو سوئز نہر عبور کی تھی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایران کی طرف سے موجود مبینہ خطرات کی تفصیلات جاری نہیں کی۔

مزید پڑھیں: عالمی پابندیوں کا خطرہ، ایران کا جوہری معاہدے پر مزید لچک پیدا کرنے کا فیصلہ

واضح رہے کہ دو روز قبل ایران نے امریکا کی جانب سے جوہری معاہدے کی دو تجارتی استثنیٰ میں توسیع نہ دینے پر پہلی مرتبہ باقاعدہ طور پر معاہدے سے جزوی دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔

ایرانی صدر حسن روحانی نے فریق ممالک کو 60 دن کی مہلت دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ اگر وہ ایرانی بینکنگ اور خام تیل کی تجارت سے منسلک شبعوں پر عائد پابندی ختم کرانے میں ناکام ہوتے ہیں تو تہران معاہدے کی مزید شرط سے دستبردار ہوجائے گا۔

یورپی یونین نے ایران پر زور دیا تھا کہ وہ جوہری ہتھیاروں سے متعلق بین الاقوامی معاہدے کی پاسداری کرے جبکہ یورپی بلاک، امریکی پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ تجارت کے لیے کوشاں ہے۔

تاہم اب تک یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک کی جانب سے کوئی نیا منصوبہ سامنے نہیں آیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے ایران پر ایک مرتبہ پھر مکمل اقتصادی پابندیاں عائد کردیں

گزشتہ روز وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ ایرانی قیادت سے بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ وہ اس میں پہل کرے اور مجھے مذاکرات کے لیے بلائے۔

امریکی صدر کے مذاکرات کے عندیہ پر ایران کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، جو ماضی میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مذاکرات کی پیشکش مسترد کر چکا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں