‘انسانی حقوق کی خفیہ خلاف ورزی’ پر بی بی سی کی رپورٹ جھوٹ ہے، آئی ایس پی آر

اپ ڈیٹ 04 جون 2019
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ رپورٹ جھوٹ کا پلندہ ہے—فائل/فوٹو: ڈان
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ رپورٹ جھوٹ کا پلندہ ہے—فائل/فوٹو: ڈان

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقوں (سابق فاٹا) میں مبینہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے سخت الفاظ میں جواب دیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' نے 2 جون کو ‘پاکستان کے قبائلی علاقوں میں انسانی حقوقِ کی پوشیدہ خلاف ورزیاں’ کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی طویل جنگ کے علاوہ مقامی معاملات اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما منظور پشتین کے حوالے سے تفصیلی بات کی گئی تھی۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘رپورٹ میں بغیر کسی ثبوت کے پاک آرمی کو شامل کیا گیا اور یہ رپورٹ صحافتی اخلاقیات کے منافی ہے’۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘رپورٹ میں کیے گئے دعوؤں کی صداقت اس میں ہونے والی ردوبدل، گھما پھرا کر بات کرنے سے آشکار ہوگئی ہے کیونکہ آئی ایس پی آر کو ای میل کے ذریعے صرف ایک ججمنٹل سوال نامہ موصول ہوا تھا’۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ‘آئی ایس پی آر نے جواب میں نشریاتی ادارے کو حقائق جاننے کے لیے مکمل موقع فراہم کرنے کی پیش کش کی تھی لیکن بی بی سی کی ٹیم نے کوئی جواب نہیں دیا اور اندازے پر مبینہ ایک کہانی تحریر کردی’۔

آئی ایس پی آر نے رپورٹ میں شامل 2014 کے ایک واقعے کا جواب دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ 2014 کے اوائل میں شمالی وزیرستان میں ایک گھر کو غلطی سے نشانہ بنایا گیا تھا کیونکہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کمانڈر کی وہاں خفیہ طور پر موجودگی کے حوالے سے غلط فہمی ہوئی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ‘نیوز چینل نے 22 جنوری 2014 کو سیکیورٹی عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا تھا کہ دو روز قبل ہمزونی کے علاقے میں عدنان رشید کی پناہ گاہ کو نشانہ بنایا گیا ہے’۔

رپورٹ کے مطابق ‘پاکستان کی فوج نے ٹی ٹی پی کےکمانڈر کے بجائے مقامی خاندان کو نشانہ بنایا تھا اور ان کے گھر کے پرخچے اڑ گئے تھے’۔

مبینہ طور پر تباہ ہونے والے گھر کے مالک نظیراللہ کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ ‘جیسے ہی گھر میں دھماکا ہوا تو میں اور میری اہلیہ نیند سے جاگ گئے، فضا میں گن پاؤڈر کی بو آرہی تھی، ہم دونوں دروازے کی طرف لپکے اور باہر نکل آئے تو ہم نے دیکھا کہ سوائے اس جگہ جہاں ہم سورہے تھے اس کے پورے گھر کی چھت بیٹھ گئی تھی’۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق نظیراللہ کے اہل خانہ میں سے 4 افراد جاں بحق ہوئے تھے جن میں 3 سالہ بچی بھی شامل تھی۔

آئی ایس پی آر نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘رپورٹ سیاق و سباق سے ہٹ کر اور اس وقت کے حالات کے مطابق اندازے پر مبنی ہے’ جبکہ شمالی وزیرستان میں اس تاریخ تک فوج نے آپریشن شروع نہیں کیا تھا جس کی نشان دہی بی بی سی نے کی ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے آپریشن 'ضرب عضب' کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن 15 جون 2014 کو شروع کیا گیا تھا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق شمالی وزیرستان میں دہشت گرد موجود تھے اور وہاں ‘منصوبہ بندی، رابطہ اور ملک بھر میں دہشت گرد ی کی کارروائیوں پر عمل کرتے تھے’ اور ملک میں ماہانہ اوسطاً 6 سے 8 دہشت گردی کے واقعات پیش آتے تھے۔

بیان میں آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ‘شمالی وزیرستان میں لوگوں کو ذبح کیا جاتا تھا اور دہشت گرد ان کے سروں سے فٹ بال کھیلتے تھے اور مقامی آبادی دراصل بڑے دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال تھی’۔

بی بی سی کی رپورٹ کو جھوٹی قرار دیتے ہوئے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ‘رپورٹ باوثوق اور مصدقہ ذرائع سے محروم ہے’ اور ‘نام نہاد اسٹرائیکس’ کے حوالے سے ہونے والے دعووں پر سنی سنائی باتوں پر انحصار کیا گیا ہے اور ایک ‘غیر مصدقہ نجی ٹی وی چینل’ کی جانب سے 22 جنوری 2014 کو نشر کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مبینہ طور پر غلطی سے ایک شہری کے گھر کو نشانہ بنایا گیا۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ‘صرف ایک حوالہ جن سے انٹرویو کیا گیا اس نے بھی کسی کی نشان دہی نہیں کی یا کسی کارروائی یا آپریشن کے حوالے سے بات نہیں کی’ اسی طرح رپورٹ میں واقعہ شمالی وزیرستان میں بتایا گیا ہے جبکہ جن ذرائع کا حوالہ دیا گیا ہے وہ ‘جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک مخصوص گروپ سے ہے’۔

ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ٹویٹ میں کہا کہ ‘بی بی سی میں 2 جون 2019 کو پاکستان کی انسانی حقوق کی خفیہ خلاف ورزیوں سے پردہ اٹھانے کے عنوان سے شائع رپورٹ جھوٹ کا پلندہ اور صحافت کی اخلاقیات کے خلاف ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس معاملے کو بی بی سی کے حکام سے باقاعدہ طور پر اٹھایا جارہا ہے’۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں