سوڈان میں فوجی حکمرانی کے خلاف ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے

اپ ڈیٹ 02 جولائ 2019
سوڈان کی دارالحکومت میں ہزاروں افراد فوجی حکمرانی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے — فوٹو: رائٹرز
سوڈان کی دارالحکومت میں ہزاروں افراد فوجی حکمرانی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے — فوٹو: رائٹرز

سوڈان میں دارالحکومت سمیت دیگر شہروں میں فوجی حکمرانی کے خاتمے کے لیے احتجاج جاری ہے جہاں شہری سڑکوں پر نکل آئے۔

خیال رہے کہ 11 اپریل کو سوڈان کی فوج نے ملک میں جاری مظاہروں کے باعث 30 سال سے برسر اقتدار صدر عمر البشیر کو برطرف کرکے گرفتار کرلیا تھا اور اقتدار بھی سنبھال لیا تھا۔

بعدازاں دونوں جانب سے اقتدار میں شراکت کا معاہدہ رواں ماہ کے آغاز میں ناکام ہوگیا تھا جب سیکیورٹی فورسز نے خرطوم میں احتجاجی مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تھا۔

مظاہرے کے منتظمین کے مطابق کریک ڈاؤن کے دوران ملک بھر میں تقریباً 128 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد 61 تھی جن میں 3 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی شامل ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق آج احتجاجی مظاہرے کے دوران مظاہرین دارالحکومت اور اس کے گرد و نواح کے شہروں کے مختلف مقامات پر اکٹھے ہوئے اور ہلاک ہونے والے افراد کے گھروں کی طرف مارچ کیا۔

مظاہرے میں شامل حامدی کرام اللہ کا کہنا ہے کہ 'سوڈانی عوام کے لیے یہ انتہائی اہم دن ہے'۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو میں دیکھا گیا کہ مظاہرین فوج کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں جبکہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ان پر آنسو گیس کی شیلنگ کی جارہی ہے۔

احتجاجی مظاہرے کی قیادت کرنے والے ادارے سوڈانی پروفیشنل ایسوسی ایشن کے ترجمان محمد یوسف المصطفیٰ کا کہنا تھا کہ 'سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استمال کیا'۔

سوڈانی ڈاکٹرز کمیٹی کا کہنا تھا کہ اتبرہ میں مظاہرے کے دوران 20 سالہ نوجوان خالد موہی ہلاک ہوگیا جبکہ ایک اور زخمی بھی ہوا۔

سوڈان میں ہو کیا رہا ہے؟

11 اپریل کو سوڈان کی فوج نے ملک میں جاری مظاہروں کے باعث 30 سال سے برسر اقتدار صدر عمر البشیر کو برطرف کرکے گرفتار کرلیا تھا اور اقتدار بھی سنبھال لیا تھا۔

وزیر دفاع نے ملک میں 2 سال کے لیے فوجی حکمرانی کا اعلان کرتے ہوئے سول جمہوری تبدیلی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کو مشتعل ہونے سے روکنے کے لیے ایمرجنسی بھی نافذ کردی تھی۔

تاہم سوڈان کے وزیر دفاع جنرل عود ابن عوف نے 12 اپریل کو ملٹری کونسل کے سربراہ کے طور پر حلف اٹھایا تھا تاہم وہ اگلے ہی دن عہدے سے دستبردار ہوگئے تھے جس کے بعد 13 اپریل کو جنرل عبدالفتح برہان نے حلف اٹھایا۔

فوج کی جانب سے صدر عمر البشیر کا تختہ الٹنے پر ہزاروں مظاہروں نے دارالحکومت خرطوم کے وسط کی طرف مارچ کیا تھا اور صدر کی برطرفی کی خوشیاں منائی تھیں۔

عود محمد ابن عوف نے کہا تھا کہ فوج، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے بنائی جانے والی ملٹری کونسل آئندہ 2 سال تک حکومت کرے گی جس کے بعد ’ شفاف اور منصفانہ انتخابات کروائے جائیں گے‘۔

انہوں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ فوج نے آئین معطل کردیا، حکومت تحلیل کردی اور 3 ماہ کے لیے ایمرجنسی بھی نافد کردی، تاہم صدر عمرالبشیر کی برطرفی کے بعد فوجی نظام سنبھالنے پر بھی مظاہرین نے غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔

احتجاج کرنے والے رہنماؤں نے صدر کی برطرفی کے بعد تشکیل دی گئی ملٹری کونسل کو بھی مسترد کردیا تھا۔

مظاہرین نے ملک میں جمہوری نظام کے نفاذ کے لیے سول قیادت اور سوڈان میں جاری تنازعات کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا جن کی وجہ سے ملک بدترین غربت کا شکار ہے۔

تاہم 4 جون کو سیکیورٹی فورسز نے ملٹری ہیڈکوارٹرز کے باہر جمع مظاہرین پر فائر کھول دیئے تھے، جس میں ابتدائی طور پر 30 افراد ہلاک ہوئے۔

بعد ازاں سوڈان کے اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا تھا کہ دارالحکومت خرطوم میں دریائے نیل سے 40 لاشیں نکالی گئیں جس کے بعد سیکیورٹی فورسز کے مظاہرین پر حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 100 بتائی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں