چیئرمین سینیٹ: حکومت کے دعوے یا اپوزیشن کا اتحاد، مقابلہ تیار

اپ ڈیٹ 31 جولائ 2019
صادق سنجرانی 12 مارچ 2018 کو سینیٹ کے  چیئرمین منتخب ہوئے تھے— فائل فوٹو / اے پی پی
صادق سنجرانی 12 مارچ 2018 کو سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے— فائل فوٹو / اے پی پی

سینیٹ میں اپوزیشن کی جانب سے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کا وقت قریب آپہنچا ہے جہاں اقلیت میں ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے بھرپور مقابلے کا اعلان کیا گیا ہے۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے گزشتہ ہفتے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ یکم اگست کو سینیٹ اجلاس ہوگا جس کے بعد اجلاس کی صدارت کے لیے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) پاکستان کے سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف کو پریزائیڈنگ افسر مقرر کیا گیا تھا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا تعلق بلوچستان کی صوبائی حکمراں جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) سے ہے جس کی ایوان میں 11 نشستیں ہیں، جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت حکومتی اتحاد میں مجموعی طور پر 40 نشستیں ہیں۔

دوسری جانب حکومتی اتحاد نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک جمع کرادی ہے جو ایوان میں پیش کی جائے گی، تاہم سلیم مانڈوی والا اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھتے ہیں جن کا اتحاد ایوان میں اکثریت کا حامل ہے۔

مزید پڑھیں:چیئرمین سینیٹ عزت بچائیں اور خود ہی استعفیٰ دے دیں، بلاول بھٹو زرداری

بیرسٹر محمد علی سیف کی صدارت میں سینیٹ کے اجلاس میں چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جائیں گے جس کے بعد تحریک پر ووٹنگ ہوگی۔

سینیٹ میں عددی برتری

سینیٹ میں جماعتوں کی نمائندگی کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایوان میں 30 اراکین کے ساتھ اکثریت ہے، پی پی پی 20 اور پی ٹی آئی 17 اراکین کے ساتھ بالترتیب دوسری اور تیسری پوزیشن پر ہیں جس کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے 11، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے 6، نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کے 5، 5 پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے 2، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے پاس ایک، ایک رکن ہے، اس کے علاوہ 5 اراکین آزاد حیثیت میں موجود ہیں۔

چیئرمین سینیٹ کو اپنا منصب بچانے کے لیے 104 کے ایوان میں 53 ووٹ کی ضرورت ہے لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اسحٰق ڈار کی عدم موجودگی میں 103 اراکین میں سے انہیں 52 ووٹ کی ضرورت ہوگی۔

ایوان میں اس وقت صادق سنجرانی کی حمایت میں حکومت اتحاد کے پاس 40 اراکین ہیں جن میں بی این پی مینگل کا ایک رکن بھی شامل ہے، دوسری جانب اپوزیشن اتحاد کے پاس 64 اراکین کی صورت میں واضح برتری ہے۔

سینیٹ کے اعداد وشمار کے مطابق صادق سنجرانی یا حکومتی اتحاد کو اپنے مقصد میں کامیابی کے لیے اپوزیشن اتحاد سے 12 اراکین کی حمایت درکار ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں:بلاول بھٹو کی حاصل بزنجو کے باآسانی چیئرمین سینیٹ بننے کی پیش گوئی

اپوزیشن کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے لیے نامزد امیدوار سینیٹر حاصل بزنجو کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر چوہدری تنویر ملک سے باہر ہیں جس کے بعد اپوزیشن اتحاد میں 62 اراکین رہ جائیں گے، اس لیے حکومت کو برتری کے لیے اپنے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ مزید 12 ووٹ درکار ہوں گے۔

خیال رہے کہ سینیٹ میں ایم ایم اے سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے اراکین نے عدم اعتماد کی تحریک میں حصہ نہ لینے کا اعلان کر رکھا ہے۔

سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کے پیش نظر وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور صادق سنجرانی کے درمیان ملاقات ہوئی۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ کو جمہوریت پسندسیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل ہے۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے عددی برتری نہ ہونے کے باوجود اپوزیشن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

دوسری جانب چیئرمین سینیٹ کے امیدوار میر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کو 65 اراکین کی حمایت حاصل ہے، چوہدری تنویر بیرون ملک دورے کے باعث غیر حاضر ہیں تاہم کامران مائیکل پروڈکشن آرڈر پر ووٹ ڈالنے آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ دھمکیوں اور دباؤ کی باتیں صحافیوں اور اراکین سے سن رہے ہیں۔

حاصل بزنجو نے کہا کہ میری تجویز ہے کی صادق سنجرانی استعفیٰ دے دیں۔

مزید پڑھیں:صادق سنجرانی چیئرمین، سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب

یاد رہے کہ صادق سنجرانی 12 مارچ 2018 کو اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں پی پی پی اور پی ٹی آئی کے تعاون سے سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوئے اور اسی اتحاد نے سلیم مانڈوی والا کو ڈپٹی چیئرمین منتخب کیا تھا۔

تحریک کی کامیابی پر نئے چیئرمین کا انتخاب

پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اس وقت ایوان میں اکثریت حاصل تھی تاہم وہ اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین منتخب کرانے میں ناکام ہوئے تھے جس کے بعد 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو پی پی پی کے اختلافات کا آغاز ہوا اور نوبت ان کے اپنے منتخب چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے تک آگئی۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے عدم اعتماد کی تحریک پر بحث کے لیے اجلاس یکم اگست کو طلب کرکے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مقابلے کا میدان سجا دیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنے دعوؤں کو درست ثابت کرپاتی ہے یا اپوزیشن اتحاد اپنے اراکین کو ٹوٹنے سے بچانے میں کامیاب ہوتا ہے۔

صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی ہے تو پھر نئے سینیٹ کا انتخاب ہوگا جس کے لیے اپوزیشن جماعتوں نے نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔

اپوزیشن کو اس دوران دوہرے امتحان سے گزرنا پڑے گا، پہلے صادق سنجرانی کے خلاف اپنی برتری ثابت کرنی ہوگی پھر حاصل بزنجو کو چیئرمین منتخب کرانے کے لیے اپنے اراکین کو دوسری مرتبہ یکجا رکھنا پڑے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں