پنجاب: پولیس تشدد کا ایک اور کیس منظر عام، اہلکار گرفتار

اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2019
صوبہ پنجاب میں حالیہ عرصے کے دوران پولیس کے شہریوں پر تشدد کے واقعات تواتر کے ساتھ رپورٹ ہو رہے ہیں— فوٹو بشکریہ پنجاب پولیس
صوبہ پنجاب میں حالیہ عرصے کے دوران پولیس کے شہریوں پر تشدد کے واقعات تواتر کے ساتھ رپورٹ ہو رہے ہیں— فوٹو بشکریہ پنجاب پولیس

صوبہ پنجاب میں پولیس کے تشدد کے کیسز کم ہونے کا نام نہیں لے رہے اور لودھراں کے جلا آرائیں پولیس اسٹیشن کی حدود میں ایک شخص کو تشدد کا نشانہ بنانے کی ویڈیو وائرل ہونے پر پولیس اہلکار کو کارروائی کا سامنا ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں جلا آرائیں پولیس اسٹیشن کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر مختیار مسعود کو جوان مرد نامی شخص پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جس کے خلاف پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: پولیس نے صلاح الدین ایوبی کو تشدد کا نشانہ بنایا، والد کا دعویٰ

جوان مرد نامی اس شخص کو لوگوں کی بڑی تعداد کے سامنے شکایت گزار کے گھر پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ذرائع کے مطابق اے ایس آئی مختیار نے جوان کو گرفتار کیا اور شکایت گزار کے گھر لے آیا جہاں لوگوں کی بڑی تعداد بھی جمع ہو گئی۔

جب اے ایس آئی نے جوان مرد کو ڈنڈے سے تشدد کا نشانہ بنانے کی کوشش کی تو اس دوران موقع پر موجود چند لوگوں نے انہیں روکنے کی بھی کوشش کی۔

ایک شخص کو اے ایس آئی کو یہ کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ 'اس کو یہاں تشدد کا نشانہ نہ بناؤ، لڑکے ویڈیو بنا رہے ہیں، تم اس کے ساتھ اپنے پولیس اسٹیشن میں جو کرنا چاہتے ہو کرو لیکن یہاں مت مارو'۔

ضلع لودھراں کے پولیس افسر ملک جمیل ظفر اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے پر فوراً جلا آرائیں پولیس اسٹیشن پہنچے اور اے ایس آئی مختیار حسین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اس کے خلاف ایف درج کی اور اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔

پولیس اہلکار کے خلاف کارروائی کے بعد ڈی پی او نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس آرڈر کے تحت مختیار کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے اور انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: پولیس کے 'تشدد سے ہلاک' ہونے والے عامر مسیح کی سی سی ٹی وی فوٹیج

انہوں نے انکشاف کیا کہ یہ واقعہ دو ماہ پہلے کا ہے لیکن یہ اب میرے علم میں آیا ہے اور اس کو دیکھتے ہوئے میں نے فوری کارروائی کی ہے۔

ڈی پی او ظفر نے کہا کہ پولیس افسر سمیت کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں اور جو کوئی بھی جرم کا ارتکاب کرے گا، اسے کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

لودھراں کے ایس پی انویسٹی گیشن سید عباس کی زیر نگرانی واقعے کی تحقیقات بھی شروع کردی گئی ہیں۔


یہ خبر 14 ستمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں