’دہشتگردی کے خاتمے سے متعلق وزیراعظم پاکستان کا بیان پاک- بھارت مذاکرات کی ٹھوس بنیاد‘

اپ ڈیٹ 29 ستمبر 2019
ایلس ویلز نے کہا کہ ہم تمام جماعتوں سے لائن آف کنٹرول پر امن اور استحکام برقرار رکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں — فائل فوٹو / اے ایف پی
ایلس ویلز نے کہا کہ ہم تمام جماعتوں سے لائن آف کنٹرول پر امن اور استحکام برقرار رکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں — فائل فوٹو / اے ایف پی

نیویارک: قائم مقام امریکی اسٹیٹ سیکریٹری ایلس ویلز کا کہنا ہے کہ سرحد پار دہشت گردی کے خاتمے سے متعلق وزیراعظم کے عزم پر اگر عملدرآمد کیا گیا تو یہ پاک–بھارت مذاکرات کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کرسکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیویارک میں نیوز بریفنگ میں امریکا کی قائم مقام سیکریٹری آف اسٹیٹ ایلس ویلز نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش جنوبی ایشیا کے 2 جوہری پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی کی خواہش کے تحت کی۔

اپنے بیان کے آغاز میں ایلس ویلز نے کہا کہ ’وزیراعظم عمران خان نے سرحد پار دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہوں کو روکنے کی ضرورت سے متعلق جو اہم عوامی وعدے کیے ہیں اگر ان پر مکمل طور پر عملدرآمد کیا جائے تو یہ مذاکرات کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کرسکتے ہیں۔

آزاد جموں و کشمیر کے بعض مظاہرین کی جانب سے مقبوضہ کشمیر سے متعلق 5 اگست کو کیے جانے والے بھارتی فیصلے کو مسترد کرنے کے لیے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) جانے کی خواہش کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہم تمام فریقین سے لائن آف کنٹرول پر امن اور استحکام برقرار رکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: خبردار کرتا ہوں! اقوام متحدہ کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دلائے، وزیراعظم

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس میں امریکی اور دیگر حکام کو مذکورہ رپورٹ پر تشویش کا اظہار کرتے سنا گیا تھا، یہاں تک کہ کچھ نے نشاندہی کی کہ موجودہ کشیدہ صورتحال میں ایل او سی پار کرنے کی کسی کوشش کے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

ایلس ویلز نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاک–بھارت کشیدگی پر واضح تشویش کا اظہار کیا تھا اور مذاکرات کو آسان بنانے کے لیے رضامندی بھی ظاہر کی تھی۔

بعد ازاں جنوبی ایشیا میں کشیدگی میں کمی کے لیے امریکا کے ممکنہ کردار سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ایلس ویلز نے کہا کہ ’صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ممالک اور خاص طور پر 2 جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی کی سطح پر اپنے خدشات کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ کشیدگی میں کمی دیکھنا چاہتے ہیں، انہوں نے رضامندی ظاہر کی تھی کہ جو بھی مثبت کردار ادا کرسکے وہ کریں گے اور اگر کہا گیا تو وہ ثالث کا کردار بھی ادا کریں گے‘۔

ایلس ویلز نے کہا کہ امریکا وسیع پیمانے پر مقامی سیاسی اور کاروباری رہنماؤں کی گرفتاریوں اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے رہائشیوں پر پابندیوں پر تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد مقبوضہ کشمیر میں پابندیوں میں سختی

بھارتی حکومت کو ایک مرتبہ پھر کشمیریوں سے پابندی اٹھانے کی یاد دہانی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہم بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے مقامی رہنماؤں کے ساتھ سیاسی روابط کی بحالی اور جلد از جلد انتخابات کا وعدہ پورا کرنے کی امید رکھتے ہیں'۔

خیال رہے کہ رواں برس جولائی میں وزیراعظم عمران خان سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی مرتبہ ثالثی کی پیشکش کا اظہار کیا تھا اور تب سے انہوں نے بارہا اپنے بیانات میں جبکہ عمران خان اور نریندر مودی سے ملاقاتوں میں اس مسئلے کو اٹھایا۔

امریکی صدر کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی میڈیا بریفنگز کے دوران بھی یہ پیشکش کی گئی تاہم بھارت ان پیشکشوں کو مسترد کرتا رہا ہے۔

امریکا کے ساتھ تجارت

ایلس ویلز نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں جولائی میں وائٹ ہاؤس میں شروع کی گئی بات چیت کو آگے بڑھایا جس میں تجارت کو توسیع دینا بھی شامل تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’توانائی، صحت، زراعت اور فرنچائزنگ کے شعبوں میں تجارت اور سرمایہ کاروں میں تعاون کے لیے ہم اگلے سال 15 پاکستانی تجارتی وفود کی میزبانی کریں گے‘۔

ایلس ویلز نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں قیام امن سے متعلق پاکستان کی کوششوں کو بھی سراہا۔

انہوں نے کہا کہ امریکا، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی شرائط پوری کرنے میں پاکستان کی مدد کرنا چاہتا ہے تاکہ اسے بلیک لسٹ ہونے سے روکا جاسکے ورنہ بلیک لسٹ ہونے سے ملک کی معیشت غیر مستحکم ہوسکتی ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ایلس ویلز نے کہا کہ ہم اکتوبر میں ایف اے ٹی ایف اجلاس میں امید رکھتے ہیں کہ پاکستان انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی امداد کا مقابلہ کرنے سے متعلق پالیسی اہداف کے حصول کے لیے مستقل اور ناقابل واپس اقدامات کرے تاکہ اپنے بین الاقوامی وعدوں کو مکمل طور پر پورا کرسکے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں