الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ معطل، قاسم سوری عبوری طور پر ڈپٹی اسپیکر بحال

اپ ڈیٹ 07 اکتوبر 2019
الیکشن ٹریبونل نے این اے 265 کوئٹہ ٹو سے قاسم سوری کی کامیابی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا تھا —تصویر: فیس بک
الیکشن ٹریبونل نے این اے 265 کوئٹہ ٹو سے قاسم سوری کی کامیابی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا تھا —تصویر: فیس بک

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی انتخابی کامیابی کالعدم قرار دینے سے متعلق الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے درخواست پر حتمی فیصلہ ہونے تک پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما قاسم سوری کی اسمبلی رکنیت بحال کردی۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف قاسم سوری کی اپیل پر سماعت کی اور اس درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرلیا۔

واضح رہے کہ قاسم سوری نے الیکشن ٹریبونل کی جانب سے انتخابات میں ان کی کامیابی کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف ایڈووکیٹ نعیم بخاری کے توسط سے عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کی تھی۔

عدالت میں دائر اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ الیکشن ٹریبونل نے شواہد کا جائزہ نہیں لیا جبکہ انتخابی عمل میں بے ضابطگیاں ان کے موکل سے منسوب نہیں ہوسکتیں۔

یہ بھی پڑھیں: سابق ڈپٹی اسپیکر کے خلاف الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

اس معاملے پر ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ سوال یہ ہے ہم نے آپ کو حکم امتناع دینا ہے یا نہیں، جس پر وکیل نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ 27 ستمبر کو الیکشن ٹربیونل نے فیصلہ دیا۔

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا اس حلقے میں ضمنی انتخاب ہوگیا ہے یا نہیں؟

عدالتی استفسار پر وکیل نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ ابھی ضمنی انتخاب نہیں ہوا، انہوں نے مزید بتایا کہ قاسم سوری نے انتخابات میں 25 ہزار 973 ووٹ لیے تھے جبکہ لشکر رئیسانی نے 20 ہزار 84 ووٹ حاصل کیے تھے اس طرح قاسم سوری نے لشکر رئیسانی سے 5585 زائد ووٹ لیے۔

جس پر جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے نتائج کا فرق درست نہیں، 25 ہزار 973 میں سے 20 ہزار 84 ووٹ نکال کر دیکھ لیں فرق اتنا نہیں۔

مزید پڑھیں: این اے 265: ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی کامیابی کالعدم، دوبارہ انتخابات کا حکم

اس پر وکیل نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ اس حلقے کُل میں 25 امیدوار تھے، نادرا رپورٹ کے مطابق غلط شناختی کارڈ 1533 اور نامکمل شناختی کارڈ 359 ہیں جبکہ حلقے میں 100غیر رجسٹرڈ ووٹ بھی کاسٹ ہوئے۔

وکیل کے جواب پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ 49 ہزار 40 فنگرپرنٹس درست نہیں ہیں اور52 ہزار فنگرپرنٹس کی کوالٹی درست نہیں تھی۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے سابق ڈپٹی اسپیکرقاسم سوری کی اپیل سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے الیکشن ٹربیونل کافیصلہ معطل کردیا اور الیکشن کمیشن کوضمنی انتخاب کروانے سے روک دیا۔

ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کا قاسم سوری کو ڈی سیٹ کرنے کا نوٹیفکیشن بھی معطل کردیا۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ درخواست پر فیصلے تک ضمنی انتخاب نہ کرایا جائے، بعد ازاں عدالتی فیصلے کے بعد قاسم سوری ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے پر دوبارہ بحال ہوگئے۔

الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ

خیال رہے کہ 27 ستمبر کو الیکشن ٹریبونل نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 265 سے کامیاب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی کامیابی کو کالعدم قرار دیا تھا۔

قاسم سوری کی انتخابی کامیابی کو نوابزادہ لشکری رئیسانی نے چیلنج کیا تھا اور 2018 انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی نے قاسم سوری کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نامزد کردیا

واضح رہے کہ لشکری رئیسانی ان 5 امیدواروں میں سے ایک تھے جنہوں نے این اے 265 سے انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن انہیں قاسم سوری سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

الیکشن ٹریبونل نے این اے 265 کوئٹہ ٹو سے قاسم سوری کی کامیابی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا تھا اور حلقے میں دوبارہ انتخابات کا حکم بھی جاری کردیا تھا۔

جس کے بعد 2 اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کو قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے ڈی نوٹیفائی کردیا تھا۔

واضح رہے کہ قاسم سوری نے عام انتخابات 2018 میں بلوچستان میں قومی اسمبلی کے حلقہ 265 کوئٹہ 2 سے کامیابی حاصل کی تھی۔

بعد ازاں وہ 15 اگست 2018 کو 183 ووٹز حاصل کرکے قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں