دنیا کی پہلی خاتون پائلٹ کی گمشدگی اب تک لوگوں کے لیے راز کیوں؟

اپ ڈیٹ 07 ستمبر 2020
امیلیا ایرہارٹ — شٹر اسٹاک فوٹو
امیلیا ایرہارٹ — شٹر اسٹاک فوٹو

یہ 2 جولائی 1937 کا ذکر ہے جب امیلیا ایرہارٹ ہاولینڈ جریزرے کی جانب پرواز کررہی تھیں جو ان کے دنیا کے گرد چکر لگانے کے مشن کے اختتامی مراحل میں سے ایک تھا۔

بحر الکاہل کے اس چھوٹے سے بے آباد جزیرے کے قریب امیلیا نے امریکی کوسٹ گارڈز سے ریڈیو کے ذریعے رابطہ کرتے ہوئے درخواست کی کہ ریڈیو سگنلز کے ذریعے طیارے کو لینڈ کرنے کے حوالے سے رہنمائی کریں۔

انہوں نے کہا ' KHAQQ کالنگ Itasca، ہم یقیناً آپ کے پاس ہیں مگر دکھ نہیں سکتے، ایندھن بہت کم رہ گیا ہے اور ہم آپ تک ریڈیو کے ذریعے نہیں پہنچ سکتے، ہم اس وقت ایک ہزار فٹ پر پرواز کررہے ہیں'۔

یہ ان کا آخری پیغام تھا جس سے عندیہ ملتا ہے کہ وہ اس جزیرے کے شمال مغرب سے جنوب مشرقی سمت کی جانب پرواز کررہی ہیں مگر خود کچھ نہیں بتایا کہ وہ کس سمت کی جانب جارہی ہیں۔

صبح 8:43 پر ہونے والے اس رابطے کے بعد ریڈیو کانٹیکٹ منقطع ہوگیا اور کسی کو نہیں معلوم ہوسکا کہ آگے کیا ہوا۔

آخری پرواز

شٹر اسٹاک فوٹو
شٹر اسٹاک فوٹو

امیلیا ایرہارٹ کو دنیا کی پہلی ہواباز خاتون قرار دی جاتی ہیں جن کے پاس 14 ہزار فٹ کی بلندی پر جہاز اڑانے والی پہلی خاتون، بحر اوقیانوس کو تنہا سر کرنے والی پہلی خاتون پائلٹ کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

امیلیا ایرہارٹ کی ہوابازی میں کامیابیوں نے انہیں اس زمانے میں دنیا بھر میں مشہور کردیا تھا اور وہ 1937 میں دنیا کے گرد چکر لگانے والی پہلی خاتون بننے کے مشن پر کام کررہی تھیں۔

29 ہزار میل کا یہ سفر خط استوا کے گرد تھا اور اس سے پہلے مارچ میں ایک ناکام کوشش کے دوران ان کے طیارے کو نقصان بھی پہنچا مگر مرمت کے بعد وہ اور ان کے نیوی گیٹر فریڈ نونان کیلیفورنیا کے علاقے اوکلینڈ سے 21 مئی کو روانہ ہوئے۔

40 دن میں 22 ہزار میل کے سفر کے دوران وہ 20 سے زائد بار رکے اور پھر پاپوا نیوگنی کے مشرقی ساحل لائی پر پہنچے اور 2 مئی کی صبح توقع تھی کہ امیلیا ایرہارٹ اور فریڈ نونان اپنے سفر کے سخت ترین مرحلے کو طے کرکے ہاولینڈ جریرے پر پہنچیں گے جو کہ لائی اور اس مقام کے درمیان ڈھائی ہزار میل کی دوری پر موجود تھا جہاں سے ایندھن دوبارہ بھرا جانا تھا۔

شٹر اسٹاک فوٹو
شٹر اسٹاک فوٹو

گھنٹوں کی پرواز کے دوران جب یہ مہم ہاولینڈ کے قریب پہنچی اور امیلیا ایرہارٹ نے امریکی کوسٹ گارڈز سے ریڈیو پر رابطہ کیا تو ایک موقع پر یہ سگنل اتنا طاقتور تھا کہ ریڈیو آپریٹر نے باہر آکر ڈیک پر جاکر آسمان پر خاتون ہوا باز کے طیارے کو دیکھنے کی کوشش بھی کی۔

مگر یہ طیارہ کبھی ہاولینڈ نہیں پہنچا اور امیلیا ایرہارٹ اور ان کے طیارے کی تلاش بڑے پیمانے پر شروع ہوئی اور 2 ہفتے بعد امریکا نے امیلیا اور فیڈ نونان کو گمشدہ قرار دے دیا۔

امریکی حکام کا موقف تھا کہ اس طیارے الیکٹرا امریکی کوسٹ گارڈ کے جہاز سے ریڈیو رابطہ قائم کرنے سے قاصر اور ایندھن ختم ہونے پر سمندر میں گر گیا۔

جب سے یہ تلاش جاری ہے

شٹر اسٹاک فوٹو
شٹر اسٹاک فوٹو

82 سال سے اس خاتون ہواباز کی قسمت کے بارے میں جاننے کے لیے مہمات کا سلسلہ جاری ہے اور گزشتہ 20 سال کے دوران متعدد تحقیقی ٹیموں نے طیارے کے ملبے کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔

اس مقصد کے لیے محققین نے امیلیا ایرہارٹ کے آخری ریڈیو ٹرانسمیشن اور الیکٹرا کے ایندھن سپلائی کا تجزیہ کرنے کے بعد تلاش کے علاقے کو سمندر میں 630 اسکوائر میل تک محدود کردیا، کچھ کا ماننا تھا کہ امیلیا ایرہارٹ اور فریڈ نونان شمال کی جانب مارشل آئی لینڈ کی جانب بڑھے تھے، جہاں طیارہ گرا اور جاپان نے انہیں پکڑلیا، جو اس وقت علاقے پر قابض تھا۔

یہاں تک کہ عینی گواہوں کا بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے امیلیا ایرہارٹ کو سائی پان کے جیل خانے میں دیکھا مگر اس کی تصدیق کے لیے ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔

دیگر جیسے انٹرنیشنل گروپ فار ہسٹورک ائیرکرافٹ ریکوری (ٹیگھار) کا ماننا ہے کہ طیارے نے جنوب میں فونیکس آئی لینڈز کی جانب پرواز کیا اور نکومارورو نامی جریزے پر اترا جہاں وہ کئی دن یا ہفتوں تک بے یارومددگار رہنے کے بعد دنیا سے گزر گئے۔

ٹیگھار کی جانب سے متعدد مہمات اس جزیرے پر بھیجی گئیں اور وہاں ایک کیمپ سائٹ اور متعدد چیزوں کی باقیات کو دریافت بھی کیا گیا اور ایک مقام پر 13 انسانی ہڈیاں بھی 1940 میں اس وقت ملیں جب یہ جزیرہ برطانوی کنٹرول میں آگیا۔

ان ہڈیوں کو معائنے کے لیے کیریباتی کے دارالحکومت تاراوا بھیجا گیا جہاں ڈاکٹر لنڈسے آئزک نے اس کا جائزہ لیا اور پھر یہ ہڈیاں فجی بھیج دی گئیں، جہاں ڈاکٹر ڈی ڈبلیو ہڈلیس نے بھی ان کا معائنہ کیا۔

دونوں ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ یہ ہڈیاں کسی مرد کی ہیں اور بعد ازاں یہ ہڈیاں پراسرار طور پر غائب بھی ہوگئیں مگر ڈاکٹروں کی رپورٹس موجود رہیں۔

حالیہ تحقیقاتی رپورٹس

شٹر اسٹاک فوٹو
شٹر اسٹاک فوٹو

حال ہی میں جولائی 2017 میں ٹیگھار اور نیشنل جیوگرافک سوسائٹی نے 4 فرانزک شواہد سونگھنے والے کتوں اور ماہرین کی ایک ٹیم کو نکومارورو جزیرے بھی بھیجیں تاکہ دیکھا جاسکے وہاں مزید ہڈیاں موجود ہیں یا نہیں۔

خصوصی طور پر تربیت یافتہ کتوں کو انسانی باقیات کی بو کو سونگھنے کی تربیت دی گئی تھی اور جیسے ہی یہ ٹیم اس مقام پر پہنچی تو وہ کتے الرٹ ہوگئے مگر ٹیم کسی بھی قسم کی ہڈیوں کی باقیات تلاش نہیں کرسکی، تاہم انہوں نے زمین کے نمونے لے کر انسانی ڈی این اے کے تجزیے کے لیے بھیج دیئے۔

نئی تحقیقی رپورٹس میں 1940 میں ملنے والی ہڈیوں کے حوالے سے کہا گیا کہ وہ اب بھی ویران جزیرے میں پھنسنے کے خیال کی تصدیق کرسکتی ہیں اور 2018 کے فرانزک تجزیے میں بھی ماضی میں سامنے آنے والی ڈاکٹروں کی رپورٹس کے متضاد نتائج سامنے آئے۔

فرانزک ماہر رچرڈ جینٹز نے تصاویر اور امیلیا ایرہارٹ کے ملبوسات کے مضامین سے ہڈیوں کے تجزیے کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد نتیجہ نکالا کہ یہ ہڈیاں کسی خاتون کی ہوسکتی ہیں جس کا قدوقامت ایرہارٹ جیسا ہوسکتا ہے۔

ان کا اصرار تھا کہ شواہد سے اس نتیجے کو تقویت ملتی ہے کہ اس جزیرے میں ملنے والی ہڈیاں امیلیا ایرہارٹ کی ہیں یا جس کی بھی ہیں وہ ان سے کافی ملتی شخصیت ہے۔

اسی طرح 2018 میں ٹیگھار نے ریڈیو سگنلز پر ایک تجزیاتی مقالہ شائع کیا جس میں خاتون ہواباز کی گمشدگی کے بعد کی راتوں کا جائزہ لای گیا۔

جولائی 1937 میں سینٹ پیٹرزبرگ، فلوریڈا، ٹورنٹو وغیرہ میں متعدد ریڈیو سننے والوں نے ایک خاتون کو مدد کی کال دیتے سنا اور ٹیگھار کا ماننا ہے کہ وہ آواز امیلیا ایرہارٹ کی تھین اور مقالے میں وضاحت کی گئی کہ اتنی دور موجود ہونے کے باوجود اس ٹرانسمیشن کو کیسے ممکن بنایا گیا۔

اسی طرح رواں سال ٹائٹینک تلاش کرنے والے امریکی ماہر رابرٹ ڈانے بلارڈ نے بھی اس حوالے سے نیشنل جیوگرافگ سمیت دیگر اداروں کی مدد سے امیلیا ایرہارٹ کو تلاش کرنے کی مہم پر کام کیا۔

2 ہفتوں کی تلاش اور لاکھوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ اس حوالے سے وہ کوئی سراغ ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔

رابرٹ بلارڈ نے اس مہم میں دلچسپی اس وقت ظاہر کی جب انہوں نے ایک ایسی تصویر دیکھی جو ایک برطانوی آفیسر نے 1940 میں نکومارورو جزیرے میں لی تھی اور اس فوٹو کو زوم کرنے پر لینڈنگ گیئر جیسی ایک چیز کا انکشاف ہوا تھا جو الیکٹرا کے لینڈنگ گیئر سے ملتا جلتا تھا۔

شٹر اسٹاک فوٹو
شٹر اسٹاک فوٹو

اگست میں یہ ٹیم اپنے تحقیقی جہاز کے ذریعے نکومارورو اور اس کے ارگرد کام کیا، جس کے حوالے سے ایک دستاویزی فلم رواں ماہ نشر نشر کی جارہی ہے۔

ٹیم نے آواز کی لہروں کی مدد سے جزیرے کا نقشہ بنایا اور زیرآب بھی 4 بحری میل تک چھان بین کی مگر امیلیا ایرہارٹ کے حوالے سے کچھ بھی تلاش نہیں کرسکے تاہم انہوں نے پتھروں کا ایک ایسا مجموعی ضرور ڈھونڈ لیا جو اس تصویر میں نظر آنے والے لینڈنگ گیئر جیسے حجم اور ساخت کا تھا۔

یہ تحقیقی ٹیم تاحال اب بھی وہاں موجود ہے اور اس کی واپسی کا انحصار نیشنل جیوگرافک کے ماہرین پر ہے جو زمین کے نمونوں کا تجزیہ کررہے ہیں تاکہ کسی قسم کا سراغ تلاش کرسکیں اور ٹیم اب بھی پرامید ہیں کہ وہ طیارے کو تلاش کرلے گی جبکہ وہ اس خیال پر بھی کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے کہ امیلیا ایرہارٹ کا طیارہ ہاولینڈ جزیرے کے قریب گرا تھا۔

دوسری جانب امیلیا ائیرہارٹ کی تلاش کے حوالے سے ایک عجیب پیشرفت 2018 میں اس وقت بھی ہوئی تھی جب نکومارورو میں 1940 میں مل کر گم ہوجانے والی ہڈیاں ایک بار پھر ڈھونڈ لی گئیں۔

یہ ہڈیاں جزیرے تاراوا کے ایک میوزیم میں دریافت کی گئیں اور محققین کا ماننا تھا کہ یہ وہی ہیں جو 1940 کے گم ہوگئی تھیں اور ممکنہ طور پر امیلیا ایرہارٹ کی ہوسکتی ہیں۔

ساﺅتھ فلوریڈا یونیورسٹی کی ایرین کیمریل فرانزک ماہر ہیں اور وہ ان ہڈیوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے اس خیال کی تصدیق کرنے کی کوشش کریں گی کہ وہ امیلیا ایرہارٹ کی ہیں یا نہیں۔

انہوں نے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے ارسال کیے ہوئے ہیں اور اس وقت نتیجے کی منتظر ہیں اور اگر تصدیق ہوجاتی ہے تو امیلیا ایرہارٹ کے حوالے سے موجود لاتعداد خیالات اپنی موت آپ مرجائیں گے، یعنی وہ حادثے میں ہلاک نہیں ہوئیں بلکہ وہ اس جزیرے میں کچھ عرصے تک پھنسی رہیں اور مدد کا انتظار کرتی رہیں۔

امیلیا ایرہارٹ دنیا کے گرد پرواز صرف زندگی میں جوش برقرار رکھنے کے لیے کرنا چاہتی تھیں مگر ان کی قسمت کے بارے میں جاننے کا عمل انتہائی سنجیدگی سے 82 سال سے جاری ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں