برطانوی حکومت کا بریگزٹ توسیع کے بجائے یورپی یونین سے فوری علیحدگی پر اصرار

21 اکتوبر 2019
مائیکل گورو نے دعویٰ کیا کہ برطانیہ 31 اکتوبر تک یونین سے الگ ہوجائے گی—فوٹو:رائٹرز
مائیکل گورو نے دعویٰ کیا کہ برطانیہ 31 اکتوبر تک یونین سے الگ ہوجائے گی—فوٹو:رائٹرز

برطانیہ نے حکومت نے پارلیمنٹ کی جانب سے بریگزٹ معاہدے میں توسیع کی درخواست کی منظوری دیے جانے کے باوجود ایک مرتبہ پھر محض 11روز میں یورپی یونین سے علیحدگی پر اصرار کردیا۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق برطانوی حکومت بریگزٹ چیف اور کابینہ کے سینئر رکن مائیکل گوو کا کہنا تھا کہ برطانیہ شیڈول کے مطابق یورپی یونین سے الگ ہوجائے گا۔

اسکائی نیوز کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ‘ہاں، ہم 31 اکتوبر کو الگ ہونے جارہے ہیں، ہمارے پاس عزم ہے اور ایسا کرنے کی صلاحیت بھی ہے’۔

خیال رہے کہ ایک روز قبل ہی برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین کے ساتھ بریگزٹ معاہدے کو ملتوی کرنے کے حق میں ووٹ دے دیا تھا۔

مزید پڑھیں:برطانوی پارلیمنٹ کا ایک بار پھر بریگزٹ معاہدے کے التوا کے حق میں ووٹ

برطانوی پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بریگزٹ معاہدے کی توثیق کے لیے بلایا گیا تھا جس میں 322 قانون سازوں نے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے قانون سازی تک اس کے التوا کے حق میں ووٹ ڈالا، جبکہ مخالفت میں 306 ووٹ ڈالے گئے۔

بورس جانسن کا کہنا تھا کہ وہ اس نتیجے سے بد دل نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کے حوصلے پست ہوئے ہیں، جبکہ وہ یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے لیے اگلے منصوبے کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔

پارلیمنٹ میں جس وقت بریگزٹ معاہدے میں التوا کے حوالے سے بحث جاری تھی، معاہدے کی مخالفت میں پارلیمنٹ اسکوائر پر ہزاروں لوگ احتجاج کر رہے تھے اور اس حوالے سے نئے ریفرنڈم کا مطالبہ کر رہے تھے کہ آیا برطانیہ کو یورپی یونین سے علیحدہ ہوجانا چاہیے یا اسی میں رہنما چاہیے۔

برطانوی حکومت پارلیمنٹ میں ایک مرتبہ پھر اس حوالے سے ووٹنگ کی خواہش رکھتی ہے۔

مائیکل گوو نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘اگر ہمیں قانون کے ذریعے اجازت مل گئی تو پھر کوئی توسیع نہیں ہوگی اور 31 اکتوبر کے اندر ہی ہوجائے گا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ہی تصور کرنا خطرناک ہے کہ یورپی یونین کے دیگر 27 رہنما توسیع کی اجازت دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:حکومت کی ترجیح 31 اکتوبر تک یورپی یونین سے علیحدگی ہے، ملکہ ایلزبتھ

دوسری جانب یورپی یونین کے سیکریٹری برائے خارجہ ڈومینک راب کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے رکن ریاستیں اب اس معاملے پر بیزار ہوگئے ہیں اور ہم بھی اس سے تنگ آگئے ہیں۔

جونسن کو پارلیمنٹ میں مشکلات کا سامنا ہے—فوٹو:اے ایف پی
جونسن کو پارلیمنٹ میں مشکلات کا سامنا ہے—فوٹو:اے ایف پی

یاد رہے کہ یورپی کمیشن کے صدر جین کلاڈ جنکر نے برسلز میں یونین کی سربراہی کانفرنس سے قبل کہا تھا کہ برطانیہ نے یورپی یونین سے سخت کوشش کے بعد بریگزٹ معاہدہ حاصل کر لیا ہے۔

جین کلاڈ جنکر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان میں کہا تھا کہ 'جہاں چاہت ہو وہاں معاہدہ ہوتا ہے، یہ یورپی یونین اور برطانیہ کے لیے منصفانہ اور متوازن معاہدہ ہے اور ہمارے حل تلاش کرنے کا عہد نامہ ہے'۔

دوسری جانب بورس جونسن نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ 'ہم نے زبردست معاہدہ حاصل کرلیا ہے جس کے ذریعے کنٹرول واپس لیا جائے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اب پارلیمنٹ کو ہفتے کے روز بریگزٹ مکمل کر لینا چاہیے تاکہ ہم دیگر ترجیحات کی جانب آگے بڑھ سکیں'۔

مزید پڑھیں:برطانیہ اور یورپی یونین کا نئے بریگزٹ معاہدے پر اتفاق

واضح رہے کہ بورس جانسن کو سابق برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کے استعفے کے بعد رواں برس جولائی میں برطانیہ کا وزیراعظم منتخب کیا گیا تھا اور انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ 31 اکتوبر کی مقررہ مدت سے قبل ہی یورپی یونین سے علیحدگی کا معاہدہ کرلیں گے۔

برطانوی وزیراعظم کو بریگزٹ کے ساتھ ساتھ دوسری جانب شمالی آئرلینڈ سے سرحدی معاملات پر بھی تنازع کا سامنا ہے، اسی طرح بریگزٹ کے بعد برطانیہ کے زیر انتظام آئرلینڈ کی قانونی حیثیت پر بھی معاملات طے کرنا ہے۔

بورس جانسن نے ملکہ ایلزبتھ سے گزشتہ ماہ پارلیمنٹ کو معطل کرنے کی منظوری لی تھی تاہم سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا جس کے بعد ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں