امریکا کے سب سے طاقتور وزیرِ خارجہ تصور ہونے والے ہنری کسنجر نے صدر رچرڈ نکسن سے بھی زیادہ جس شخص کی خوشامد کی وہ ایران کے شاہ محمد رضا پہلوی تھے۔

1970ء کے عشرے میں شاہ محمد رضا پہلوی تیزی سے مہنگے ہوتے تیل ذخائر کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں صدر نکسن اور ہنری کسنجر کی پالیسیوں میں عمل دخل کی وجہ سے بہت مضبوط تصور کیے جاتے تھے۔ شاہ ایران چاہتے تھے کہ امریکا ایران کو بھی مغربی جرمنی اور برطانیہ کی طرح اہمیت دے۔ صدر نکسن کے قومی سلامتی مشیر اور بعد میں 1973ء میں وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے کام کرنے والے ہنری کسنجر کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ شاہ ایران کی انا کی تسکین کرتے رہیں اور انہیں باور کرائیں کہ وہ بادشاہوں کے بھی بادشاہ ہیں۔

مئی 1972ء میں امریکی صدر رچرڈ نکسن نے تہران کا دورہ کیا تو شاہ ایران نے عراق میں بعث پارٹی کی حکومت کے خلاف کرد باغی لیڈر مصطفیٰ بارزانی کی حمایت کے لیے صدر نکسن پر زور ڈالا۔ شاہ ایران نے صدر نکسن کو باور کرایا کہ ماسکو عراق میں بعث پارٹی، کردوں اور کمیونسٹوں کا اتحاد بنانے کی کوشش میں ہے، ماسکو اس کوشش میں کامیاب رہا تو کرد جو اب تک عراقی حکمران جماعت بعث پارٹی کے لیے کانٹا بنے ہوئے ہیں ان کے لیے اثاثہ بن جائیں گے۔

ملاقات میں موجود ہنری کسنجر نے سوال کیا کہ امریکا کیا کرسکتا ہے؟ شاہ نے جواب دیا کہ امریکا کردوں کی مالی اور عسکری مدد کرے تاکہ وہ سوویت حمایت یافتہ عراق کے ساتھ لڑتے رہیں۔ امریکی صدر اور ہنری کسنجر نے اتفاق کیا کہ سوویت یونین عراق میں بہت آگے بڑھ چکا ہے اور اس کے اثر و رسوخ کا توڑ کرنا ہوگا۔

اس دورے کے ایک ہفتے بعد شاہ ایران نے سی آئی اے کے ذریعے ہنری کسنجر کو پیغام بھجوایا کہ کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے ادریس بارزانی اور محمود عثمان واشنگٹن آرہے ہیں، ان کا استقبال کیا جائے۔

ہنری کسنجر اور وائٹ ہاؤس پہلے ہی تیار تھے لیکن کرد لیڈروں کو اعلیٰ سطح پر ملنے کی بجائے کسی اور طریقے کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہنری کسنجر نے محکمہ خارجہ اور قومی سلامتی دفتر کو بھی ان معاملات سے بے خبر رکھا تھا اس لیے فیصلہ ہوا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر رچرڈ ہیلمز ان سے ملاقات کریں گے۔

کرد لیڈروں کے واشنگٹن پہنچنے سے پہلے صدر نکسن نے تہران کو پیغام بھجوادیا کہ واشنگٹن کردوں کی مدد کو تیار ہے۔ کرد لیڈروں نے رچرڈ ہیلمز سے ملاقات میں مطالبہ کیا کہ امریکا کردوں کی خودمختاری کے مقصد کی حمایت کرے اور انہیں مالی، عسکری اور انٹیلی جنس مدد دے تاکہ وہ کردوں کی فوج تیار کرکے عراق کی بعث پارٹی کا تختہ الٹ سکیں۔ رچرڈ ہیلمز نے کرد لیڈروں کو بھرپور تعاون کا یقین دلایا لیکن شرط رکھی کہ امریکی تعاون کو منظرِ عام پر نہیں لایا جائے گا۔

کردوں نے فوجی ضروریات کے لیے 60 ملین ڈالر سالانہ کا مطالبہ کیا۔ سی آئی اے نے صرف 16 ملین سالانہ کی سفارش کی اور 9 ملین ڈالر ایران کو دینے تھے۔ امریکا نے 3 ملین ڈالر نقد کے علاوہ 2 ملین ڈالر کا اسلحہ فراہم کرنا تھا جبکہ 4 ملین ڈالر برطانیہ اور اسرائیل کی جانب سے دیے جانے تھے۔ امریکیوں کا مقصد کرد ریاست بنانا نہیں بلکہ عراقی فوج کو کمزور کرنا اور اندرونِ ملک مصروف رکھنا تھا۔ اس تعاون کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں اتحادی ملکوں کے علاوہ ان کی پراکسیز کے ساتھ امریکی روابط کا آغاز ہوا۔

یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ شمالی شام میں امریکا کی کردوں سے بے وفائی کا رونا جو آج واشنگٹن میں رویا جا رہا ہے، یہ نیا نہیں۔ اس کے ساتھ ہی ترکی، ایران، شام اور عراق کے کردوں کے حوالے سے تحفظات بھی عشروں پرانے ہیں۔ کردوں کے حوالے سے امریکی عزائم پر شکوک بھی اتنی ہی پرانی تاریخ رکھتے ہیں۔

کرد نسل 2 ہزار سال سے جنوب مشرقی ترکی کے پہاڑی علاقوں سے شمال مغربی ایران کے پہاڑی علاقے کے درمیان ایک لاکھ 91 ہزار اسکوائر کلومیٹر رقبے پر آباد ہیں۔ اس وقت 10 ملین کرد ترکی، 6 ملین ایران، ساڑھے 3 ملین عراق اور 2 ملین سے کچھ زیادہ شام میں آباد ہیں۔ کرد نہ صرف سرحدوں کے درمیان تقسیم ہیں بلکہ قبائلی، سیاسی اعتبار سے بھی تقسیم ہیں اور اس تقسیم میں علاقائی طاقتوں کا بھی ہاتھ ہے۔

کردوں نے پہلی بار ایک کمیونٹی کے طور پر اپنی الگ شناخت بنانے کی کوشش 20ویں صدی کے آغاز میں کی۔ قومی شناخت کا یہ عمل ٹھیک اس وقت شروع ہوا جب ترکوں اور عربوں نے عثمانی خلافت کے شہری ہونے یا ایک امّہ کا رکن ہونے کا تصور چھوڑ کر نسلی بنیادوں پر اپنی شناخت کو محسوس کرنا شروع کیا اور امت کی جگہ قوم کے تصور نے لے لی۔ ترکوں اور عربوں کے برعکس کردوں کے لیے قومی شناخت بنانے میں سب سے بڑا مسئلہ ان کا اپنا ثقافتی اور لسانی ورثہ نہ ہونا تھا۔

نئے ترکی میں رہنے والوں نے نسلی شناخت کے بجائے ملکی شناخت کی بنیاد پر قوم کا تصور اپنایا۔ کرد ترکی میں رہتے ہوئے ترک زبان سے عاری تھے۔ ایران کی 50 فیصد آبادی ایرانی نسل تھی باقی آبادی آذری ترک، عرب، بلوچ، ترکمان اور دیگر چھوٹی چھوٹے نسلی گروہوں پر مشتمل تھی لیکن ایران نے فارسی کو قومی زبان کے طور پر مسلط کرکے تمام فارسی بولنے والوں کو ایرانی شہری کی پہچان دی۔

کردوں کو بھی ایرانی شہری قرار دینے میں کوئی ممانعت نہ تھی سوائے اس کے کہ وہ اپنی زبان کو فارسی سے نکلی ایک ذیلی زبان کے طور پر تسلیم کرلیں۔ ایران میں کردوں کا ایک اور مسئلہ مسلکی تقسیم تھی۔ کردوں کی اکثریت سنّی عقیدے سے تعلق رکھتی تھی۔ عراق میں کردوں کے لیے سیاسی اعتبار سے زیادہ مشکل صورت حال تھی۔ عراق ایک مکمل عرب ملک تھا جو عرب قومیت کے تصور کو پختہ کرنے کی طرف مائل تھا، اور ان کے لیے کرد اس سرزمین کے جدی پشتی رہائشی ضرور تھے لیکن عرب نہیں تھے۔

ایک قومیت کے حوالے سے عام تصور یہ ہے کہ موروثی طور پر ایک قوم، نسلی یا لسانی اعتبار سے ایک گروپ، شاید یہی وجہ ہے کہ کردوں کو طویل عرصے تک ایک قوم کی حیثیت سے ماننے سے انکار کیا گیا۔ کردوں کی اپنی مسلمہ سرزمین اور ریاست نہ ہونا بھی ان کے لیے قومی شناخت میں مسئلہ رہا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد کرد علاقوں میں تیل کے ذخائر کی دریافت نے کردوں کے لیے الگ وطن اور قومیت کو مزید مشکل بنا دیا۔

امریکیوں کی مداخلت کی وجہ سے کردوں کے لیے مشکلات مزید بڑھیں۔ کرد اور امریکی رومانس کئی بار ٹوٹا اور جڑا۔ ایران اور عراق کے ساتھ سوویت یونین کے تعلقات اور بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے امریکی کردوں کو ساتھ ملانے کی طرف مائل ہوئے جس کا مقصد سوویت یونین کو روکنا تھا۔

1972ء میں صدام حسین اور سوویت یونین کے درمیان فوجی، اقتصادی اور سیاسی تعاون کے لیے رابطے شروع ہوئے اور ان رابطوں کے نتیجے میں 9 اپریل 1972ء کا معاہدہ دوستی طے پایا۔ ایران اور امریکا کی تشویش اس وقت مزید بڑھ گئی جب صدام حسین نے عراقی پٹرولیم کمپنی کو قومیا لیا۔ رضا شاہ نے ایران اور اردن میں عراقی مداخلت کے خوف سے امریکیوں کو کردوں سے تعاون پر مجبور کیا۔

شاہ ایران اور امریکا دونوں ہی کردوں کی الگ ریاست یا عراق کو توڑنے میں سنجیدہ نہیں تھے بلکہ ان کے خیال میں کرد عراق کے سامنے زیادہ عرصہ ٹھہرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ شاہ ایران اور امریکا صرف عراقی فورسز کو الجھائے رکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے اور اس کا نتیجہ توقعات کے مطابق تھا۔ امریکا اور کردوں کا رومانس جلد ٹوٹ گیا لیکن کردوں کی مالی اور عسکری مدد امریکا کی طرف سے غیر ریاستی عناصر کو استعمال کرنے کا نقطہ آغاز تھا۔ امریکا نے ریاستوں کے ساتھ ساتھ غیر ریاستی عناصر کو استعمال کرکے مشرق وسطیٰ میں کنٹرول کی جو پالیسی اپنائی وہ دنیا کے دوسرے حصوں تک پھیلتی چلی گئی اور اسی پالیسی کی وجہ سے دنیا آج دہشت گردی کی جنگ لڑ رہی ہے۔

1970ء کے عشرے میں کردوں کی مدد سے متعلق امریکی پالیسی نے ایسے نتائج دیے جو امریکی آج تک بھگت رہے ہیں۔ اسی پالیسی کے نتیجے میں 1971ء میں برطانیہ کو گلف سے نکلنا پڑا اور 1989ء میں خمینی کا انقلاب دیکھنا پڑا۔

اس عشرے میں امریکا نے کردوں کو صدام کے اقتدار کے خلاف استعمال کیا اور روس کو روکنے کی کوشش کی لیکن ساتھ ہی ایرانی کردوں کو بھی امریکا نے زیرِ اثر لینا شروع کردیا اور امریکا نے کردوں کو مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔

1975ء میں شاہ ایران نے عراق کے ساتھ معاہدہ کیا، کئی علاقوں پر اپنا حق منوایا اور صدام نے کردوں کو امریکا، ایران، اسرائیل سے ملنے والی امداد روکنے کے لیے تمام شرائط کمزور فریق کی حیثیت سے مان لیں۔ شاہ ایران نے اس معاہدے کے نتیجے میں ایرانی کردوں پر بھی قابو پا لیا۔ صدام حکومت نے کردوں کو محدود خودمختاری کا وعدہ کیا جو کبھی پورا نہ ہوا۔ اس معاہدے پر دستخط سے مصطفیٰ بارزانی کی سیاسی جماعت کا شیرازہ بکھر گیا کیونکہ کرد امریکی حمایت ملنے کے بعد الگ ریاست سے کم پر تیار نہیں تھے۔

1977ء سے 81ء کے عرصہ میں صدر جمی کارٹر کی حکومت نے کردوں کو تنہا چھوڑ دیا اور تیل کی دولت سے مالا مال عرب ریاستوں کے تحفظ اور اسرائیل کی سیکیورٹی پر توجہ مرکوز رکھی۔ خمینی کے انقلاب کے بعد امریکا نے صدام کو اتحادی بناکر شیعہ اسلام اور روسی کمیونزم کو روکنے کی کوشش کی۔ اس عرصے میں امریکا کی پالیسی یہ تھی کہ کردوں کی الگ ریاست کا قیام خطے میں عدم استحکام لائے گا اور کرد ریاست کے لیے ترکی، شام اور عراق کے کچھ حصوں کو الگ کرنا پڑے گا اور پہلی خلیجی جنگ تک امریکا کی یہ پالیسی برقرار رہی۔

1970ء میں ترکی میں پولیٹیکل اسلام کے ابھرنے اور ترکی کے بائیں بازو کی طرف سے کردوں کو الگ قوم تسلیم کیے جانے پر امریکی آشیرباد اور سی آئی اے کی مداخلت سے ترکی میں دوسری فوجی بغاوت ہوئی۔

ترک اشرافیہ امریکی عزائم کے بارے میں شکوک کا شکار ہوئی اور دوسری طرف شام میں بعث پارٹی اور حافظ الاسد نے شام میں کردوں پر سختی بڑھانے کے ساتھ ساتھ کرد زبان پر پابندی لگا کر عربی مسلط کردی گئی۔ کرد ناموں اور علاقوں کے ناموں کو عربی میں ڈھالا گیا۔ ان تمام اقدامات کے نتیجے میں ترکی میں کردوں کے گروپ پی کے کے سمیت 12 کرد گروپ تشکیل پائے۔

ایران میں انقلاب کے بعد غیر ایرانیوں کو حقوق دینے سے انکار کیا گیا اور 18 مارچ 1989ء کو کرد ملیشیا اور پاسداران کے درمیان جنگ چھڑی۔ فروری 1980ء میں ایرانی کردوں نے خودمختاری سمیت 6 نکاتی پلان دیا۔ آیت اللہ خامنہ ای کی سخت مخالفت کے باجود وزیرِاعظم مہدی بازرگان نے کردوں کے ساتھ ہمدردی دکھائی، کرد زبان پڑھانے کی اجازت دی اور کردوں کو اسمبلی میں نمائندگی دی جس کی وجہ یہ خوف تھا کہ کردوں کی آڑ میں انتہا پسند عناصر گڑبڑ پھیلا سکتے ہیں۔

اگست 1989ء میں کردوں کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا گیا۔ کردوں کی جماعت کو شیطان کی جماعت قرار دیا گیا اور کردوں نے سمجھوتے کی بجائے ہتھیار اٹھانا پسند کیا۔

رونالڈ ریگن کے صدر بننے کے بعد 1981ء سے 1989ء تک امریکی پالیسیوں میں بڑا بدلاؤ آیا۔ امریکا نے عراق کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی پالیسی چھوڑ کر ایران کے خلاف عراق سے تعاون مضبوط کیا۔ امریکا نے عراق کی اقتصادی اور تکنیکی مدد شروع کردی۔ 1980ء کے عشرے میں امریکا نے عراق کو کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری میں مدد دی۔ بغداد میں امریکی سفارتخانے میں ایک خصوصی سیل قائم کیا گیا جس کا مقصد صرف صدام حسین کے اقتدار کی حمایت کرنا تھا۔

ایران عراق جنگ میں امریکا نے عراق کی بھرپور مدد کی لیکن 1986ء میں ایران کو بھی ہتھیار سپلائی کیے۔ اس دوران کرد مسئلہ سرد خانے میں چلا گیا۔ فروری 1983ء میں ترکی اور عراق نے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی سرزمین پر سرگرم مسلح گروپوں کے خلاف تعاون کیا اور یہ تعاون کردوں کے خلاف تھا۔

1984ء میں صدام نے ترکی کو شمالی عراق میں 15 کلومیٹر اندر تک کرد باغیوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کی اجازت دی۔ اس تمام عرصے میں کرد کئی گروپوں میں بٹے رہے، کوئی گروپ تہران کا اتحادی تھا تو کوئی بغداد کا، جبکہ کچھ گروپ ترکی کا ساتھ دے رہے تھے۔

ستمبر 1980ء میں امریکا نے ترکی میں تیسری فوجی بغاوت کی سرپرستی کی اور جنرل کنعان ایورن اقتدار میں آئے۔ اس عرصے میں کردوں پر مزید پابندیاں لگیں۔ ترکی میں نسلی بنیادوں پر پارٹیاں بنانے پر پابندی لگ گئی، تمام شہریوں کو ترک قرار دیا گیا اور کرد زبان پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ کرد علاقوں میں مارشل لا نافذ کیا گیا اور ترک سیکیورٹی فورسز کو خصوصی اختیارات دیے گئے۔

1986ء میں صدام حسین نے ایران کے ساتھ تعلق کے الزام پر کردوں کے خلاف آپریشن کیا اور بعد میں صدام پر کردوں کی نسل کشی کے الزامات لگے۔ 63 ہزار کرد ترک وطن کرکے ترکی میں داخل ہوئے اور ترکی نے انہیں بے گھر افراد کے طور پر قبول کیا۔ یہ عراق میں کردوں کی پہلی ہجرت تھی۔ عراق کے ساتھ ایران کے خلاف اتحاد، ترکی کے نیٹو اتحادی ہونے کی بنا پر 90 کا پہلا نصف عشرہ امریکی پالیسیوں کے تسلسل کا عرصہ تھا۔

ادھر ترکی اور شام کے درمیان کرد لیڈر عبداللہ اوکلان کو پناہ دینے، ہاتے اور فرات کے دریاؤں کے تنازع پر تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ ترکی کے کرد گروپ پی کے کے نے گوریلا جنگ شروع کردی۔ پی کے کے نے چاروں ملکوں میں موجود کرد علاقے کو ایک کنفیڈریشن بنانے کے عزائم کا اعلان کیا۔

شام ایک عشرے تک ترکی کے خلاف پی کے کے کو استعمال کرتا رہا۔ عراق نے بھی اپنے باغی کردوں کے خلاف پی کے کے سے ہاتھ ملا لیا۔ ایران نے بھی پی کے کے کو مدد دینا شروع کر دی۔ شام نے اپنے علاقے کے کردوں کو ترک پی کے کے میں بھرتی کرایا۔ طویل پراکسی جنگ کے بعد شام اور ترکی میں دریاؤں پر سمجھوتہ ہوا اور عبداللہ اوکلان کو ملک بدر کردیا گیا۔

جنوری 1989ء میں جارج بش سینئر کے صدر بننے کے بعد امریکی پالیسی بھی تبدیل ہوئی اور امریکا نے اسرائیل اور خلیجی ریاستوں کو صدام حسین کی دھمکیوں کو سنجیدہ لیا اور صدام کے علاقے میں اجارہ داری کے عزائم کو روکنے کا کام شروع ہوا۔ 2 اگست 1990ء کو کویت پر عراقی حملے کے بعد امریکا نے عراق کا ساتھ چھوڑ دیا اور الٹا اس پر بمباری کردی۔

ایران میں ہاشمی رفسنجانی کے صدر بننے کے بعد کردوں کے متعلق ایرانی پالیسی مزید سخت ہوئی لیکن پی کے کے کو ایرانی سرزمین پر اڈے بنانے کی اجازت دی گئی۔ ترکی میں صدر طورغت اوزال نے کرد مسئلے کا درست ادراک کیا۔ کرد زبان پر عائد پابندی نہ صرف ہٹائی بلکہ اسے دوسری زبان کے طور پر پڑھانے کی اجازت دی۔ امتیازی قوانین ختم کیے، کرد زبان میں اشاعت کی اجازت دی، کرد زبان میں ریڈیو، ٹی وی پروگرام نشر کیے گئے۔ کردوں کو سیاسی جماعت بنانے کی اجازت ملی۔ 1993ء میں طورغت اوزال کی وفات کے بعد کردوں کے متعلق ترکی کی پالیسی نہ صرف رک گئی بلکہ کچھ حد تک واپس اپنی جگہ چلی گئی۔

اوباما نے داعش کے خلاف جنگ کے لیے کرد ملیشیا کو اتحادی بنایا۔ ٹرمپ نے ابتدا میں پالیسی جاری رکھی لیکن داعش کو شکست سے پہلے ہی ٹرمپ نے داعش کو ہرانے کا کریڈٹ لیا اور فتح کا اعلان کردیا۔ یہ کرد ہی تھے جنہوں نے داعش کے خلاف جنگ کو انجام تک پہنچایا لیکن ٹرمپ نے ترکی کے فوجی آپریشن کے اعلان پر کردوں کو تنہا چھوڑ دیا۔

اب ترکی کردوں کے علاقے میں سیف زون بنا کر وہاں شامی عربوں کو بسانا چاہتا ہے تاکہ اس کی سرحدیں کردوں سے محفوظ رہیں۔ اس مقصد کے لیے ترکی نے کردوں کو علاقہ خالی کرنے کے لیے کہا ہے اور مختصر جنگ بندی ہوئی جس کی مدت پوری ہوچکی۔ محدود علاقے سے کرد نکل تو نکل گئے لیکن بشارالاسد کی فوجیں کردوں کی جگہ لے چکی ہیں۔

کردوں کو اندرونِ ملک بالکل دیوار سے لگانے کے بجائے طیب اردوان نے انہیں سیاسی حقوق دیے لیکن آج بھی ترکی میں کرد سیاسی اعتبار سے مکمل مطمئن نہیں ہیں۔ کئی کرد میئرز کو ہٹا کر انتظامی افسروں کو چارج دیا گیا ہے۔ عراق میں کردوں کے ایک صوبے کو خودمختاری مل چکی لیکن کرکوک کے تیل ذخائر عراقی حکومت اپنے قبضے میں لے چکی ہے جس سے کردوں کی الگ ریاست کے خواب کو دھچکا لگا ہے۔ امریکا سمیت کوئی بھی طاقت کردوں کو الگ ریاست دینے میں سنجیدہ نہیں بلکہ انہیں پراکسی وار کے لیے استعمال کرنا تمام ملکوں کی ضرورت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

honorable Oct 25, 2019 08:54am
what is America doing here in the middle east?
aSIF SHAHID Oct 25, 2019 10:19am
آپ کا سوال اہم ہے کہ امریکا مشرق وسطیٰ میں کیا کر رہا ہے؟ لیکن اس بلاگ کا مقصد کردوں کا مسئلہ واضح کرنا تھا، امریکی عزائم اور موجودہ حکمت عملی الگ بلاگ کی متقاضی ہے