حراستی مراکز کو غیرقانونی قرار دینے کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل

اپ ڈیٹ 25 اکتوبر 2019
چیف جسٹس نے لارجر بینچ تشکیل دینے کا حکم دے دیا— فائل فوٹو: اے ایف پی
چیف جسٹس نے لارجر بینچ تشکیل دینے کا حکم دے دیا— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا ایکشن ( ان ایڈ آف سول پاور) آرڈیننس 2019 کو غیرقانونی قرار دینے سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس امین الدین پر مشتمل 3 رکنی عدالتی بینچ نے مذکورہ معاملے پر ایک لارجر بینچ کے قیام کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے وفاقی اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے معاملے کو قومی اہمیت کا حامل قرار دیا۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ کسی بھی قیمت پر آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل انور منصور خان اور کے پی ایڈووکیٹ جنرل شمائیل بٹ نے ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل پیش کیے۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ اپیل پر حتمی فیصلے تک پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل رہے گا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: خیبرپختونخوا خصوصی اختیارات آرڈیننس کے خلاف درخواست دائر

بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی اور اب یہ معاملہ 15 نومبر کو لارجر بینچ کے سامنے اٹھایا جائے گا۔

خیال رہے کہ گورنر خیبرپختونخوا نے اگست میں ایکشن ان ایڈ سول آف سول پاور آرڈینس نافذ کیا تھا جس کے تحت مسلح فورسز کو کسی بھی فرد کو صوبے میں کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ بغیر وجہ بتائے اور ملزم کو عدالت میں پیش کیے بغیر گرفتاری کا اختیار حاصل ہوگئے تھے۔

17اکتوبر کو چیف جسٹس وقار احمد شاہ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل پشاور ہائی کورٹ ڈویژن بینچ نے پاٹا ایکٹ 2018، فاٹا ایکٹ 2019 اور ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاورز) ریگولیشن 2011 کی موجودگی میں ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاورز) آرڈیننس 2019 کو کالعدم قرار دیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ میں مختلف افراد کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئی تھیں جن میں خیبرپختونخوا کے حراستی مراکز میں قید لوگ بھی شامل ہیں۔

خیبرپختونخوا خصوصی اختیارات آرڈیننس کے خلاف دو درخواستیں ایڈووکیٹ شبیر حسین گگیانی کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔

اپنے فیصلے میں پشاور ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ 2019 کے مذکورہ آرڈیننس کو غیرقانونی قرار دیا تھا جس کے تناظر میں صوبہ خیبرپختونخوا کے سیکریٹری داخلہ کو تمام حراستی مراکز کو قانون کے مطابق 24 گھنٹے میں سب جیل قرار دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایم ٹی آئی آرڈیننس کا مقصد سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری نہیں، عمران خان

اسی طرح خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل کو آئندہ 3 روز میں تمام سب جیلوں کا کنٹرول سنبھالنے کی ہدایت دی تھی۔

ساتھ ہی پشاور ہائی کورٹ نے حراستی مراکز میں قید ان تمام افراد کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا جن پر 90 روز کے دوران کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا تھا اور جب پر مقدمہ درج ہوا تھا انہیں قانون کے مطابق عدالت میں پیش کیا جائے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں سیکریٹری داخلہ خیبرپختونخوا اور آئی جی لوگوں کی زندگی اور آزادی کے ذمہ دار ہوں گے۔

پشاور ہائی کورٹ نے خیبرپختونخوا کے سیکریٹری داخلہ اور آئی جی کو حراستی مراکز میں قید افراد کی فہرست تیار کرکے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران عدالت میں پیش کرنے کا کہا تھا اور فہرست پیش کرنے کے لیے 7 روز کا وقت دیا تھا۔

تاہم پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے وزیر قانون اور وفاقی حکومت نے 46 سوال اٹھائے تھے، اس میں آئین کے آرٹیکل (3)245 کی نشاندہی بھی کی گئی تھی جس کے مطابق آرٹیکل 245 کے تحت مسلح فورسز سے متعلق معاملے میں ہائی کورٹ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت کسی دائرہ کار کا استعمال نہیں کریں گی۔

اپیل میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ کیا ہائی کورٹ کے پاس انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی رپورٹس پر انحصار کرنے کا کوئی جواز موجود ہے جو صرف ریاست مخالف عوامل نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے پھیلائی تھیں۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کی جانب سے 2019 کے آرڈیننس کو لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے تحت مسترد کرنے کی درخواست دائر کی گئی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ آئین میں 25ویں ترمیم سے قبل قبائلی علاقہ جات آرٹیکل 247 کے تحت چلائے جاتے تھے، جس میں صدر مملکت کو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے ( فاٹا) اور صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقے (پاٹا) میں امن اور حکومت سے متعلق قوانین بنانے کا اختیار حاصل تھا۔

2011 میں صدر مملکت نے ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاور) ریگولیشز کو نافذ کیا تھا جس کا اطلاق فاٹا اور پاٹا پر ہوتا تھا۔

ان قوانین میں واضح کیا گیا تھا کہ ملک کی سالمیت کو درپیش خطرات کی وجہ سے قانون کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔

تاہم 25ویں ترمیم کے بعد سے آئین میں سے آرٹیکل (7)247 کا خاتمہ کردیا گیا جسے گزشتہ برس 31 مئی کو نافذ کیا گیا تھا اس کے ساتھ ہی فاٹا اور پاٹا دونوں کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں