مقبوضہ کشمیر میں سیب کی ترسیل کرنے والے 2 ٹرک ڈرائیور قتل

اپ ڈیٹ 26 اکتوبر 2019
مقبوضہ کشمیر میں سیب کا تجارتی حجم 2 ارب ڈالر تک ہے—فوٹو: رائٹرز
مقبوضہ کشمیر میں سیب کا تجارتی حجم 2 ارب ڈالر تک ہے—فوٹو: رائٹرز

مقبوضہ کشمیر کے ضلع شوپیاں سیکٹر میں نامعلوم افراد نے سیب کی ترسیل پر معمور 2 ٹرک ڈارئیوروں کو قتل کرکے دونوں ٹرک کو آگ لگا دی۔

واضح رہے کہ بھارت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی جس کے بعد مقامی صنعت خصوصاً سیب کی پیداوار اور اس کی ترسیل پر حملوں کے واقعات جنم لے رہے ہیں۔

مذکورہ واقعے کو نئی دہلی اور مسلح گروہ کے مابین تجارتی جنگ کے پس منظر میں دیکھا جارہا ہے جبکہ یہ بھی واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں سیب کا تجارتی حجم 2 ارب ڈالر پر مشتمل ہے۔

مزیدپڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں صورتحال کی بہتری کیلئے وقت درکار ہے، بھارتی سپریم کورٹ

اس حوالے سے ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق مقامی پولیس افسر منیر خان نے بتایا کہ ’دونوں ٹرک ڈرائیوروں کا تعلق کشمیر سے نہیں تھا اور انہیں ضلع شوپیاں میں نشانہ بنایا گیا‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے پاس حملہ آوروں سے متعلق اہم شواہد موجود ہیں‘۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے شوپیاں میں ہی مسلح گروہ کے حملے میں سیب کے 2 تاجر اور ایک ڈرائیور ہلاک ہوگیا تھا اور ان کا تعلق بھی کشمیر سے نہیں تھا‘۔

آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں سیب کی کاشت کا پہلا سیزن ہے، جو مقامی معیشت کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ اس سے تقریباً 30 لاکھ سے زائد لوگوں کا روزگار وابستہ ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارتی اقدام ہمیں قبول نہیں، رہنما ناگالینڈ

دوسری جانب حکام کا کہنا ہے کہ مقبوضہ وادی سے گزشتہ ہفتے سیب سے بھرے 10 ہزار ٹرک روانہ ہوئے لیکن ہزاروں کاشت کاروں نے رضاکارانہ طور پر نئی دہلی کے فیصلے کے خلاف احتجاجاً سیب کو نہیں توڑا جس کے باعث سیب سڑنا شروع ہوگئے ہیں۔

خیال رہے کہ 6 اگست کو بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کو بھارت کی سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔

اس ضمن میں متعدد سماعت ہوچکی ہیں تاہم اگلی ساعت 5 نومبر ہوگی۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کیا ہے؟

واضح رہے کہ آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے اور آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا ہے۔

اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔

بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔

مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 35 'اے' اسی آرٹیکل کا حصہ ہے جو ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق اور استحقاق کی تعریف کے اختیارات دیتا ہے۔

مزیدپڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں 9 روز سے کرفیو، عوام غذا اور ادویات سے محروم

1954 کے صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل 35 'اے' آئین میں شامل کیا گیا جو مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور استحقاق فراہم کرتا ہے۔

اس آرٹیکل کے مطابق صرف مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا ہے۔

آرٹیکل 35 'اے' کے تحت مقبوضہ وادی کے باہر کے کسی شہری سے شادی کرنے والی خواتین جائیداد کے حقوق سے محروم رہتی ہیں، جبکہ آئین کے تحت بھارت کی کسی اور ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور مستقل رہائش اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

آئین کے آرٹیکل 35 'اے' کے تحت مقبوضہ کشمیر کی حکومت کسی اور ریاست کے شہری کو اپنی ریاست میں ملازمت بھی نہیں دے سکتی۔

تبصرے (0) بند ہیں