مولانا فضل الرحمٰن نے کراچی سے آزادی مارچ کا آغاز کردیا

اپ ڈیٹ 01 نومبر 2019
مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ کا آغاز کراچی سے کیا—فوٹو:اے ایف پی
مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ کا آغاز کراچی سے کیا—فوٹو:اے ایف پی
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم نے پاکستانی عدلیہ کے فیصلے کو قبول کیا —فوٹو: فیس بک
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم نے پاکستانی عدلیہ کے فیصلے کو قبول کیا —فوٹو: فیس بک

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی)، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ہمراہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے خلاف کراچی سے 'آزادی مارچ' کا آغاز کردیا۔

کراچی میں آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم بھارت سمیت دنیا کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر پوری قوم ایک پیج پر ہے۔

واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط کو آج 72 برس ہوگئے جس پر پورے ملک میں یوم سیاہ منایا جار ہے اور مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ 27 مارچ کو کشمیریوں سے اظہاریکجہتی منانے کے ساتھ ہی آزادی مارچ کا آغاز ہوگا۔

مزید پڑھیں: آزادی مارچ: جے یو آئی کے مرکزی رہنما مفتی کفایت اللہ اسلام آباد سے 'گرفتار'

انہوں نے کہا کہ 'ہماری بھی کچھ کوتاہیاں ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے حکمرانوں نے معلوم نہیں کس مصلحت کے تحت کشمیر کا سودا کیا'۔

آزادی مارچ کا آغاز کراچی میں سہراب گوٹھ سے ہوا جہاں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے علاوہ اپوزیشن کی تمام بڑی جماعتوں کے کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'ہم کشمیر سے متعلق پاکستان کے حکمرانوں کے خفیہ معاہدے اور کشمیر کے سودے کے فیصلے کو قبول نہیں کرتے'۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ 'آج پورے ملک میں مقبوضہ کشمیر سے اظہار یکجہتی کا دن منایا جارہا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی دن 1947 کو بھارتی فورسز نے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کیا لیکن آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر کی آزادی تک ان کے لیے بیس کمیپ کا کردار ادا کرتا رہے گا۔

انہوں نے عالمی برادری، اقوام متحدہ اور او آئی سی سمیت دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں سے کشمیر کے اندر ہونے والے مظالم کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کا آزادی مارچ کے دوران ریڈ زون میں داخل نہ ہونے کا فیصلہ

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'ایک قوم کی آزادی چھین کر اس پر قدغن لگا رہے ہیں، ہم اس پر خاموش نہیں رہیں گے'۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے علاوہ آزادی مارچ کے جلسے میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے پاکستان کے رہنماؤں اور کارکنان نے بھی شرکت کی۔

کراچی سے آزادی مارچ براستہ سکھر پنجاب کے مختلف علاقوں سے ہوتا ہوا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچے گا۔

اسلام آباد پہنچ کر اسلام کا پرچم لہرائیں گے، مولانا فضل الرحمٰن

آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'یہ قافلہ اسلام آباد کی طرف چلے گا، اس قافلے کا آغاز ہوگیا'۔

انہوں نے واضح کیا کہ 'پورے ملک سے قافلے جمع ہورہے ہیں اور 31 اکتوبر کو آزادی مارچ اسلام آباد میں داخل ہوگا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت کی مذاکراتی ٹیم ہم سے این آر او لینے آئی تھی، ہم نے اس کو مسترد کردیا'۔

جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد پہنچ کر اسلام کا پرچم لہرائیں گے اور وزیراعظم عمران خان کو ہرحال میں استعفی دینا ہوگا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'لیکن ہم نے پاکستانی عدلیہ کے فیصلے کو قبول کیا اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں گے'۔

انہوں نے واضح کیا کہ 'ہم اپنے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوں گے، 25 جولائی کے جعلی انتخابات اور اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے'۔

واضح رہے کہ اپوزیشن جماعت کے سربراہ کی جانب سے اس آزادی مارچ کو منعقد کرنے کا مقصد 'وزیراعظم' سے استعفیٰ لینا ہے کیونکہ ان کے بقول عمران خان 'جعلی انتخابات' کے ذریعے اقتدار میں آئے۔

'کراچی والوں کا مجمع دیکھ لو اور دے دو استعفی'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'حکمران کہتے تھے کہ زیادہ لوگ اسلام آباد آجائیں تو استعفی دے دوں گا، کراچی والوں کا مجمع دیکھ لو اور دے دو استعفی'۔

انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کو بھی داد دیتا ہوں کہ انہوں نے یکجہتی کا ثبوت دیا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے حافظ حمد اللّہ کی پاکستانی شہریت ختم کرنے کو حکومت کی انتقامی کارروائی قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حافظ حمد اللّہ کے خلاف فیصلے کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں اور مفتی کفایت اللہ کو قید کرلیا تاکہ ہماری صفوں میں اشتعال پیدا کریں لیکن ہم مثبت سیاست کے حامی ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم نے پوری زندگی ملکی آئین کی وفاداری میں گزاری ہے اور شدت پسندوں کا مقابلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ 'انشا اللّہ یہ حرکتیں حکومت کے گلے پڑیں گی اور دیکھ لو سندھ باب الاسلام سے ہم نے اپنے سفر کا آغاز کردیا'۔

پیپلز پارٹی آزادی مارچ کے شرکا کا ہر جگہ استقبال کرے گی، رضا ربانی

سابق چیئرمین سینیٹ و پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے آزادی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کے اراکین و کارکنان آزادی مارچ کا ہر جگہ استقبال کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے چیئرمین بلاول بھٹو کی ہدایت پر مارچ میں شرکت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آج تاریخی دن ہے وہ اس لحاظ سے کہ کشمیر کے عوام سے یکجہتی کا دن منارہے ہیں'۔

رضا ربانی نے کہا کہ 'مودی سرکار کشمیر میں قابض اور جیلیں عقوبت خانے بنے ہوئے ہیں'۔

انہوں نے کا کہا کہ کشمیر میں اتنا ظلم ہورہا ہے، آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے مسلم امہ خاموش ہے۔

رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم کشمیر میں آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں اور ظلم ستم کی مذمت کرتے ہیں۔

وزیراعظم استعفی دیں اور شفاف انتخابات کرائے جائیں، محمد زبیر

سابق گورنر سندھ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے تک جدوجہد جاری رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے پاس نظریہ ہے اور نہ کوئی منصوبہ اس لیے وزیراعظم استعفیٰ دیں اور شفاف انتخابات کرائے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کو کامیاب بنانا ہے۔

جس ملک کے حکمران کمزور ہوں وہ فیصلے نہیں کرسکتے، شاہی سید

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر سینیٹر شاہی سید نے اپنے خطاب میں کہا کہ 25 جولائی کے انتخابات پر ڈاکا مارا گیا اور جس ملک کے حکمران کمزور ہوں وہ فیصلے نہیں کرسکتے۔

انہوں نے کہا کہ جمہوری حکومت کے خاتمے کے حق میں نہیں مگر یہ 'سلیکٹڈ اور نااہل' حکومت ہے۔

شاہی سید نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو جمہوری تسلیم نہیں کرتیں۔

مقبوضہ کشمیر سے متعلق انہوں نے کہا کہ 'ہم میں سو برائیاں صحیح مگر ہم کشمیر کا سودا نہیں کرسکتے کیونکہ کشمیر کے معصوم لوگوں نے پاکستان کے لیے قربانیاں دیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر ملک بچانا ہے تو اس حکومت کو بھگانا ہوگا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ ملک اسلام کے نام پر بنا اسے ظالموں سے چھٹکارا دلانا ہے'۔

خیال رہے کہ آزادی مارچ کے اعلان کے بعد وزیراعظم عمران خان نے جے یو آئی (ف) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک 7 رکنی مذاکراتی کمیٹی قائم کی تھی۔

حکومت اور اپوزیشن کے مابین پہلی مذاکراتی نشست ناکام ہونے کے بعد گزشتہ روز ہونے والی مذاکراتی نشست کسی حد تک کامیاب رہی اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے چیئرمین اکرم درانی نے اعلان کیا کہ آزادی مارچ کے حوالے سے ہمارا متفقہ فیصلہ ہے کہ ہم ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے۔

مزیدپڑھیں: حکومت کا اپوزیشن کو 'آزادی مارچ' کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ

دوسری جانب اسلام آباد میں علی الصبح پولیس نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اہم اور مرکزی رہنما مفتی کفایت اللہ کو آزادی مارچ کے حق میں اشتعال انگریز تقریر کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔

مانسہرہ کے ضلعی پولیس افسر نے مفتی کفایت اللہ پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے گزشتہ روز ریلی میں لوگوں کو آزادی مارچ میں شرکت کے لیے اکسایا، کارنر میٹنگز کی اور چند جمع کیا تھا۔

آزادی کارواں شام کو حیدر آباد پہنچا جہاں مختصر قیام کے بعد سکرنڈ کی جانب روانہ ہوگیا جبکہ سکھر میں رات گزارنے کے بعد یہ کارواں صبح پنجاب کے لیے روانہ ہوگا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے حیدر آباد بائی پاس میں موجود شرکات سے مختصر خطاب کیا جہاں جمعیت علمائے اسلام (ف) حیدرآباد اور میرپورخاص ڈویژن کے کارکن اور رہنما کاررواں کے منتظر تھے۔

کوئٹہ سے آزادی مارچ کا آغاز

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے جمعیت علمائے اسلام (ف) اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے آزادی مارچ کا آغاز کردیا گیا ہے۔

کوئٹہ سے آزادی مارچ کی قیادت جے یو آئی (ف) کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع کررہے ہیں۔

انتظامیہ سے ہونے والا معاہدہ قائم ہے، مولانا فضل الرحمٰن

مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت سے معاہدے ختم کرنے کی خبر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آزادی مارچ کے حوالے سے معاہدہ اسلام آباد کی انتظامیہ سے ہوا جو برقرار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ معاہدہ ختم ہونے کی افواہوں پر یقین نہ کیا جائے، معاہدہ توڑنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے، ہمارامعاہدہ حکومت کے ساتھ ہوا ہی نہیں بلکہ اسلام آباد انتظامیہ کے ساتھ ہے جو برقرار ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر حکومت ہماری آزادی مارچ کی شروعات سے ہی خوف زدہ ہوکر بوکھلاگئی ہے اور انتقامی کارروائیاں شروع کرنا چاہتی ہے تو یہ ان کی جانب سے یک طرفہ معاملہ ہوگا۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے کہا کہ ہم پرامن لوگ ہیں، آئین اور قانون کے تحت ہی اپنا جمہوری حق استعمال کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں