اپوزیشن کا آزادی مارچ کے دوران ریڈ زون میں داخل نہ ہونے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 01 نومبر 2019
ہمارا آزادی مارچ پرامن ہوگا لہٰذا تمام راستے کھولے جائیں، اکرم درانی — فوٹو: ڈان نیوز
ہمارا آزادی مارچ پرامن ہوگا لہٰذا تمام راستے کھولے جائیں، اکرم درانی — فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے چیئرمین اکرم درانی کا کہنا ہے کہ آزادی مارچ کے حوالے سے ہمارا متفقہ فیصلہ ہے کہ ہم ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے۔

میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے اکرم درانی نے کہا کہ 9 جماعتوں پر مشتمل رہبر کمیٹی بنائی گئی جس کا مجھے چیئرمین مقرر کیا گیا، کمیٹی کے 11 اراکین سے ابھی بات کرکے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے۔'

انہوں نے کہا کہ 'آزادی مارچ روڈ پر کریں گے جو طویل نہیں ہوگا تاہم موقع کی مناسبت سے فیصلہ کریں گے۔'

اکرم درانی نے رہبر کمیٹی کے حکومت سے مطالبات دہراتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم مستعفی ہوں، شفاف الیکشن ہو جس میں فوج کی مداخلت نہ ہوں، اسلامی دفعات کا تحفظ کیا جائے اور نیب کی جانب سے گرفتار سیاسی اسیروں کی رہائی ہمارے مطالبات میں شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آزادی مارچ: 'ہم حکومت کے ہر انتہائی قدم کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں'

انہوں نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ذیلی تنظیم 'انصار الاسلام' پر پابندی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'تمام جماعتوں کی اس طرح کی تنظیمیں ہیں لہٰذا اس پر پابندی عقل سے باہر ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا آزادی مارچ پرامن ہوگا لہٰذا تمام راستے کھولے جائیں اور امن و امان کی صورتحال کو خطرے میں نہ ڈالا جائے جبکہ امید ہے کہ حکومت ہمارے مطالبات تسلیم کرے گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز حکومت کی مذاکراتی ٹیم اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان حکومت مخالف 'آزادی مارچ' کے حوالے سے دو مراحل میں ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے تھے۔

باخبر ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا تھا کہ مذاکرات میں صرف جلسے کے مقام کے ایک نکتے پر بات ہوئی جبکہ دیگر نکات پر بات نہیں کی گئی۔

مزید پڑھیں: حکومت کا اپوزیشن کو 'آزادی مارچ' کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ

آزادی مارچ

واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے جون میں یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت اکتوبر میں اسلام آباد میں حکومت مخالف لانگ مارچ کرے گی۔

اپوزیشن جماعت کے سربراہ کا اس آزادی مارچ کو منعقد کرنے کا مقصد 'وزیراعظم' سے استعفیٰ لینا ہے کیونکہ ان کے بقول عمران خان 'جعلی انتخابات' کے ذریعے اقتدار میں آئے۔

مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے اس لانگ مارچ کے لیے پہلے 27 اکتوبر کا اعلان کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں اسے 31 اکتوبر تک ملتوی کردیا گیا، ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ 27 اکتوبر کو دنیا بھر میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف یوم سیاہ منایا جاتا ہے، لہٰذا اس روز کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن سے مذاکرات کیلئے حکومت کی 7 رکنی کمیٹی تشکیل

اس آزادی مارچ کے اعلان کے بعد وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے جے یو آئی (ف) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک 7 رکنی مذاکراتی کمیٹی قائم کی تھی۔

ابتدائی طور پر کمیٹی کے رکن اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جانب سے ملاقات کے لیے ٹیلی فون پر رابطہ کرنے کے بعد جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے اپنی جماعت کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کو اس ملاقات کی اجازت دی تھی۔

تاہم 20 اکتوبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے تحفظات کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے پارٹی کے وفد کو صادق سنجرانی سے ملاقات کرنے سے روک دیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ اب اپوزیشن کی مشترکہ رہبر کمیٹی کرے گی۔

علاوہ ازیں 21 اکتوبر کو اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ حکومت سے مذاکرات پرامن مارچ کی یقین دہانی کے بعد ہوں گے، جس کے بعد حکومت نے جے یو آئی (ف) کو 'آزادی مارچ' منعقد کرنے کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں